حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اعرض عن الجاہلین، فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم الی قولہ فاعف عنہم و استغفر لہم وشاورہم فی الامر، صل من قطعک و اعف عمن ظلمک و احسن الی من اساء الیک ‘‘خلق حسن عدم تعدی ہے خلق کریم صفح جمیل اور عفو ہے اور خلق عظیم احسان و ایثار ہے پس خلق عظیم میں خلق حسن اور کریم سب داخل ہیں اس لیے خلق حسن مراتب صلحاء میں سے ہے اور خلق کریم مراتب انبیاء میں سے ہے اور خلق عظیم مرتبہ ختم نبوت میں سے ہے خلاصہ یہ ہے کہ خلق کے سلسلہ میں ابتدائی مرتبہ ہے حسن اخلاق کا جس کا سوال حدیث میں فرمایا گیا:’’ اللہم انی اسئلک الصحۃ والعفۃ و الانابۃ و حسن الخلق والرضا بالقدر‘‘ اس سے اوپر کا مرتبہ ہے کرامت اخلاق کا جس کو حدیث میں فرمایا گیا: ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ اور تیسرا مرتبہ اس سے اوپر کا ہے خلق عظیم کا جو ایثار مطلق اور احسان کامل ہے وہ خلق نبوی ہے جس کی قرآن نے شہادت دی’’ وانک لعلی خلق عظیم‘‘(۶) اب قرآنی تفسیر کا ایک حکیمانہ اسلوب ملاحظہ کیجئے: ’’علم یقین ، اور حیاء اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباس یواری سوأتکم و ریشا و لباس التقویٰ ذلک خیر ذلک من آیات اللہ، لعلہم یتذکرون‘‘ مفسرین نے فرمایا لباساً سے مراد علم ہے اور ریشاً سے مراد تقوی ہے اور لباس تقویٰ کے معنی حیاء ہیں تو حیاء عمل کا پہلا مبداء ہے اور علم خشیت کا پہلا مبداء ہے اور خشیت ایمان کا پہلا مبدا ہے اور ایمان و ہ معرفت ہے اور میں نے نہیں پیدا کیا جن اور انسان کو مگر تا کہ وہ عبادت کریں میری یعنی تاکہ میری معرفت حاصل کریں ۔ (۷) یہ اقتباس کچھ بغیر تمہید وتبصرہ کے بھی پڑھ ڈالیے، بقول مولانا عبدالماجد دریا آبادی:چمن کی سیر خود بھی تو ایک چیز ہے،یہ کیا کہ ہر جگہ مالی سے پوچھ تاچھ کی جائے: ’’حق تعالیٰ نے دنیا کی ہر قوم کو تین مرکز عطا کئے اور ان تین مرکزوں کے بغیر کسی قوم کی قومیت قائم نہیں ہوسکتی ایک علمی مرکز جس کی طرف علم صحیح کے لیے رجوع کیا جائے ایک عملی مرکز جس کی طرف عمل کی ہیئت اور اسے درست رکھنے میں رجوع کیاجائے اور ایک اجتماعی مرکز جس کی طرف دینی جماعتی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے رجوع کیا جائے علمی مرکز خدا کی کتاب ہوتی ہے عملی مرکز رسول کی ذات ہوتی ہے اور اجتماعی مرکز قبلہ ہوتا ہے یہود و نصاری کے عمل مرکز تورات و انجیل ہیں عمل مرکز حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں اور اجتماعی مرکز بیت المقدس ہے کتنی بڑی نعمت اور فضل کی بات ہے کہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان تینوں مرکزوں میں امتیازی شان کے مرکز دئے جو اپنی نوعیت میں دنیا کی تمام اقوام کے مراکز سے فائق تر ہیں ۔(۸)