حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ضروری معلومات لے کر دیندار بن جائیں عالم ہونا ان کے بس کی بات نہیں غرض مربی اور مربوب دونوں کی اصلاح ظاہر و باطن استقامت قلب و دماغ تسویہ فکر و اخلاق انہماک فی العلم اور استغراق اور حرص علم تواضع و فروتنی اتباع و ادب عدم انحراف سرکشی سے بچاؤ عبادت و طاعت تقرب الہی اور پھر انتخاب قابل و منفعل و غیرہ امور رہیں جن کے بغیر نہ مربی تربیت کرسکتا ہے نہ مربوب تربیت پاسکتا ہے اور یہ سب اورقلم کی خصوصیات سے نمایاں ہیں اس لیے حق تعالیٰ نے اپنے نبی پاک پر سے جنون کی تہمت اور نا فہمی کے الزام اٹھائے جن کے ہوتے ہوئے افادہ بھی نا ممکن ہے اس سے حضور کا افادہ کاملہ واضح فرمایا گیا ہے جس سے عقل و فہم علم و عشق اور تمام ستودہ اخلاق و مقامات کا اثبات خود بخود ہو جاتا ہے جس سے ’’ماانت بنعمۃ ربک بمجنون‘ کا مقام واضح ہوتا ہے جو کمال دماغ و فکر کی علامت ہے اور ’’انک لعلی خلق عظیم‘‘ کا مقام نمایاں ہوجاتا ہے جو کمال قلب کا مقام اور عقل و قلب اعلی ہیں تو ہر چیز اعلیٰ ثابت ہوگی اس لیے یہاں قلم کو گواہ بنا کر یہ دو دعوے کئے گئے ایک نفی ٔ جنون جو کمال عقل اور ایک اثبات اخلاق جو کمال عشق ہے اسے قوت علمی کے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ایک سے قوت علمی کے مضبوط تر ہونے کی طرف ایماء فرمایا گیا ہے اور یہی دو قوتیں ہیں قوت علمی اور قوت عملی جو سارے کمالات کی اساس ہیں ۔(۵) حکیمانہ طرز بیان کے ساتھ محققانہ وعارفانہ اسلوب کی بھی ایک جھلک دیکھ لی جائے: ’’اخلاق کی بنیادیں تین ہیں استیفاء حق بالمثل، ترک حق احسان بالحق، یعنی اخلاق کی بنیاد ہے ضبط و تحمل اور صبر و برداشت جس درجہ میں یہ صبر و ضبط زیادہ ہے وہی درجہ اکمل و احسن ہے مثلاً اگر کوئی بد اخلاقی سے پیش آئے تو ابتدائی درجہ اخلاق کا استیفاء حق بالعدل ہے یعنی معاملہ میں حدود کی رعایت اور وہ یہ کہ انتقام لینے میں مماثلت سے کام لیا جائے تعدی نہ کی جائے تو رات کا حکم ہے وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس و العین بالعین الی قولہ و الجروح قصاص یہ اخلاق فاضلہ کی بات ہے کہ تعدی نہ ہو ظلم نہ ہو عدل قائم رہے مگر یہ درجہ اولیٰ ہے دوسرا درجہ اس سے اونچا ہے کہ قصاص نہ لے معاف کردے ’’نحن تصدق بہ فہو کفارۃ لہ فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ‘‘ یہ خلق حسن ہے تیسرا درجہ اس سے اونچا ہے کہ ایثار کرے اور نہ صرف اپنا حق ہی چھوڑ دے بلکہ اوپر سے احسان بھی کرے اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دے یہ خلق عظیم ہے موسوی شریعت میں اخلاق کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انتقام لینا ضروری تھا مگر عدل کے ساتھ عیسوی شریعت میں خلق حسن تھا کہ معاف کرنا ضروری تھا جسے حق چھوڑنا کہتے ہیں یہ خلق حسن ہے، محمدیؐ شریعت میں خلق عظیم ہے کہ اوپر سے احسان بھی کرو اور ایثار سے پیش آؤ’’ خذ العفو و أمر بالعرف و