حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ہے یعنی افادہ کرتا ہے تو ضروری ہے کہ کاتب کے ہاتھ میں ہو از خود حرکت نہیں کرسکتا بلکہ اس کی حرکت کے تابع ہو کر اس کی حرکت سے حرکت میں آتا ہے، اس سے اشارہ اس طرف ہے کہ جب تک طالب علم اپنے مربی اور معلم کے ہاتھ میں ہوکر اس کے تابع محض نہ بن جائے اور علم میں اگلوں کی نقل نہ کرے ان سے استغنا نہ کرے تب تک اس کی افادی حیثیت کھل ہی نہیں سکتی پس طو طبقہ آزاد محض ہوکر اور اپنے مربیوں سے مستغنی بن کریا ان کے مقابل آکر یا بے سند و استناد چاہتے ہیں کہ علم کی دولت کا افادہ کریں تو یہ ناممکن ہے اگر آزاد ہوکر کریں گے تووہ ان کے اوہام کا افادہ ہوگا علم کا نہ ہوگا علم تو وہی ہے جو مستند اور منقول ہو انبیاء کی شان یہ ہے کہ ’’وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی‘‘ پس جیسے نبی قلم کی طرح حق تعالیٰ کے ید قدرت میں ہوتا ہے کہ جو وہ کہیں وہی کہتا ہے خود اپنی بات نہیں کہتا بلکہ اپنے خدا کی بات کہتا ہے اوراسی کی سند لاتا ہے بے سند نہیں کہتا اسی طرح طالب علم بھی جب تک اپنے سکھلانے والے کے تابع ہوکر سند سے اس کی بات نقل نہ کرے علم کی حداثت اس تک نہیں پہنچ سکتی، اس اتباع کے ساتھ استناد نکلا اس لیے سند کی طلبہ کو ضرورت پڑتی ہے، پھر قلم جب حروف بناتا ہے تو اسے کاغذ پر سرنگوں ہونا پڑتا ہے کاغذ پر اس کا سر ہوتا ہے روشنائی گرتی رہتی ہے حروف بنتے رہتے ہیں اس میں پہلا اشارہ تو اس طرف ہے کہ جس کاغذ پرحرف بنائے جائیں اس پر پوری توجہ معطوف کی جائے یعنی معلم میں لا پرواہی یا سفلی اغراض نہ ہوں بلکہ ہمہ تن تعلیم ہو اور ساتھ ہی متعلم پر انتہائی توجہ ہو گویا اس پر اوندھا ہو جائے کہ اس کے بغیر فیضان نہیں ہوتا اس سے تیسرا اشارہ اس طرف ہے کہ قلم افادہ کے وقت جب تک کاغذ کی زمین پر سر نہ ٹیک دے گویا سر بسجود ہو جائے اور روئے یعنی بصورت روشنائی اس کے آنسو ٹپکیں گویا سجدے کرتا جاتا ہے اورروتا جاتا ہے تب علم اس سے نکلتا ہے اور افادی شان اس سے کھلتی ہے اور دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے اگر معلم ہی سر پھرا ہو نہ وہ علم کی طرف شوق سے متوجہ ہے نہ طالب علم کی طرف بلکہ بندہ اغراض ہے استغراق سے خالی ہے تو اس سے افادہ کیا ہو سکتا ہے تو اس سے نکل آیا کہ افادہ کنندہ کا عبادت گذار ہونا ضروری ہے جو اس سے قلب کے رقت اور لین کی علامت ہے کہ اس کے بغیر افادہ نہیں ہوتا ساتھ ہی اس سے یہ بھی واشگاف ہوا کہ قلم کا کاغذ پر جھکنا اور سر رکھ دینا گویا افادہ میں ہمہ تن لگ جانا ہے پھر قلم جس چیز پر سر ٹیکے اس میں ارتسام حروف کی قابلیت ہونی چاہیے اگر قلم زمین پر سر رگڑے جائے یا سیاہ لوہے پر حرکت کئے جائے تو ارتسام حروف نہ ہوگا اس سے واضح ہوا کہ قلم کی فاعلیت کے ساتھ محل ارتسام میں قابلیت انجذاب کی اہلیت نہیں رکھتے غافل ہیں یا ان کی سطح قلب درست نہیں ہے تو ان پر محنت رائیگاں چلی جاتی ہے ان کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ دین کی