حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ذہن سازی یعنی قلب و دماغ اور ظواہر کی شائستگی ناگزیر ہے اس سے طالب علم کے بارے میں دماغ اور قلب کی اصلاح اور وضع ظاہر کی طرف اشارہ ہے فرق اتنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تربیتی مقامات براہ راست حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہوتے ہیں جن میں اسباب عادیہ کو دخل نہیں ہوتا اس لیے سارے امور بحق انبیاء وہبی ہوتے ہیں نہ کہ کسبی اور غیر نبی میں یہی امور کسبی اور اکتسابی ہوتے ہیں جن میں ظاہری اسباب اور اپنی محبت کا دخل ہوتا ہے جس سے وہ نبوت کے کمالات سے مستفید ہوتے ہیں لیکن نبوت کسی درجہ میں بھی کسبی نہیں ہے وہ موہبت الٰہی ہے اور اس کے لیے انتخاب افراد بھی من اللہ ہے ’’اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ ‘‘اور اب وہ ختم نبوت کے بعد ختم بھی ہے کہ نہ انتخاب ہوگا اور نہ کوئی نیا نبی آئے گا، تو اب چوتھا مقام یہ ہے کہ قلم کو دوات میں ڈالا جائے اور وہ روشنائی حاصل کرے جس سے بالآخر حروف بننے کا مقام آجائے اور علم کی صورت کے لیے راہ ہموار ہو اس سے واضح ہے کہ افادۂ علم میں قلم کی محض صورت قلم کافی نہیں ہے جب وہ دریائے روشنائی میں سر ڈوب نہ جائے اس لیے روشنائی اس کے حق میں بمنزلہ دریائے علم کے ہے یعنی جب تک اس میں انغماس بلکہ استغراق نہیں ہوگا اور قلم بھر پور روشنائی نہ لے گا صاف اورروشن حروف اس سے نکل کر مر تسم نہ ہوں گے اور افادہ مشکوک ہو جائے گا، اس سے واضح ہے کہ طالب علم اگر محض اپنی ذاتی رائے یا عقل دور اندیش سے یا مصلحت بینی سے از خود کچھ کہے گا تو محض قلم کی آواز اور صریف اقلام ہوگی جو بے معنی ہے اس لیے طالب علم کو علم میں ہمہ وقت استغراق رکھا جائے گا کہ ’’العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک‘‘ پھر اس سے آگے کا مقام یہ ہے کہ وہ سرنگوں ہوکر روشنائی میں غوطہ لگائے ورنہ وہ افادہ نہیں کرسکتا یعنی اگر قلم کا منہ اوپر ہو جائے اور نیچے نہ جھکے تو وہ بھر بھی نہیں سکتا کیوں کہ بھراؤ جب ہی ہوتا ہے جب اس میں جھکاؤ ہو اور وہ ڈوب کر اس سے نکلے تو طالب علم بھی جب تک سرنگوں نہ ہو یعنی ’’تواضع للعلم و لاہل العلم و لمکان العلم و بقراطیس العلم‘‘ نہ ہو وہ علم کا وعاء نہیں بھر سکتاکبر و نخوت اور ترفع و تعالیٰ سے علم کبھی نہیں آسکتا بے ادبی اور جسارت کے ساتھ علوم نبوت کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جس سے ’’لایمسہ الا المطہرون‘‘ کا مقام پیدا ہوتا ہے جب انبیاء علیہم السلام بھی بحر علم میں مستغرق ہوتے ہیں اور اس کی طرف جھک کر اپنے کو علم سے بھرتے ہیں جن میں ادب و تواضع کی انتہا ہوتی ہے تو دوسروں کی تو حقیقت ہی کیا ہے بہرحال اس سے قلم کے دو مقام ثابت ہوئے ایک روشنائی میں مستغرق ہو اور ایک سرنگونی کے ساتھ مستغرق ہونا یعنی ایک علم کی دھن اور ایک تأدب بالعلم جو تحصیل علم کے موقوف علیہ مقامات ہیں پھر جب علم روشنائی سے بھر جانے کے بعد جب کاغذ پر نقوش بناتا