حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
میں سے نہیں ہیں تو حال شریعت کے تقاضوں کے مطابق اخلاق سے متعلق ہوتا ہے جیسے ایک آدمی کو اگر پانی لانے کا حکم دیا جائے تو اگر وہ ہتھیلی میں پانی لائے اور اپنے ہاتھ کو آمر کے منھ سے لگادے تو اس کوبے ادب کہا جائے گا اس لیے کہ اس قسم کا فعل براحال قرار دیا جاتا ہے اور اگر ایک پاک صاف ظرف میں پانی لائے اور اس کو دوسرے ظرف میں رکھ دے پھر تواضع کے ساتھ وہ پانی آمر کو پیش کرے تو اسے باادب کہا جائے گا تو پانی پیش کرنا ایک فعل ہے اور اس کو پیش کرنے کا طریقہ اگر اچھا ہے تو وہ ادب ہے اور اگر برا ہے تو بے ادبی ہے تو ادب حال سے متعلق ہوتا ہے افعال سے متعلق نہیں ہوتا۔ (۴) ’’طالب علم یامعلم کے اوصاف‘‘اس عنوان کے مالہٗ وماعلیہ،سیاق و سباق او رمناسبات کا اہتمام تو معنون میں آپ دیکھ ہی لیں گے ،خاصہ کی چیز وہی حکمت آفرینی ہے جس کے لئے ذیل کااقتباس آپ کے سامنے رکھا جارہاہے،تحریر حکیم الاسلام کی ہے ،اس لئے معنون کی طوالت ایک لذت اور لطف ہی محسوس کریں گے، اورہر پہلا فقرہ دوسرے فقرے کے لئے ’’ہل من مزید‘‘ کا سامان ہی بنے گا،چناں چہ فرماتے ہیں : ’’ن والقلم‘‘ان سے مراد دوات بھی ہوسکتی ہے جو کہ قلم کے مناسب ہے، حق تعالیٰ نے دوات کو شاہد اور گواہ اور برہان بنا کر حضور کی نفی جنون پر حجت قائم فرمائی ہے قلم کی متعلقہ صفات و افعال پر غور کیا جائے تو نہ صرف اس سے نفی جنون ہی کا اثبات ہوتا ہے بلکہ مقامات نبوت کی افادی حیثیت اور اس کے مبادی و اسباب پر بھی روشنی پرتی ہے سب سے پہلے قلم کی یہ صفت سامنے رکھی جائے کہ وہ اپنی ذات میں علم سے خالی ہے محض واسطہ ظہور علم ہے یعنی قلم واسطہ اظہار علم ہے اور واسطہ افادۂ علم ہے خود قلم کی ذات کوری ہے اس لیے آپ کو قلم سے تشبیہ دی گئی کہ آپ خود کچھ نہیں فرماتے وحی الٰہی سے بولتے ہیں سب سے اونچا مقام علم کا ہے کہ اس کے بغیر نہ عبادت ممکن ہے علم معبود علم صفات معبود علم افعال معبود علم حق ذاتی ہے بقیہ سب کا عطائی ہے یعنی ذات کوری رکھی گئی ہے پس جو بھی عالم ہے وہ ناقل علم ہے۔ قلم سے افادہ کی شرط یہ ہے کہ قلم کو پہلے اس ہیئت پر لایا جائے کہ وہ محض لکڑی نہ رہے اس کی صورت افادہ کی بن جائے سو قلم کی لکڑی کو سب سے پہلے چھیل کر صاف کرتے ہیں اور اوپر کا سرا کاٹتے ہیں جو اوپر گرہ وغیرہ کی شکل میں ہوتا ہے تا کہ وہ صاف ہو کر لا قلمی سے قلم بننے کے مقام پر آجائے اور اسے قلم کی صورت دی جا سکے یہ گویا ابتدائی مجاہدہ ہے قلم کے لیے اس کی مثال انبیاء میں ابتدائی خلوت گزینی اور علائق سے بے تعلقی ہے جیسے غار حراء کے مجاہدات، گو نبوت کسبی نہیں کہ کسب پر نبوت مرتب ہو بلکہ نبوت کے آثار میں سے ہے جو نبوت کی استعداد پر مرتب ہوتے ہیں یہ مثال اس کی ہے کہ جب تک استفادہ کنندہ میں سے