حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ان کی یہی وسیع النظری، بلند نظری اور خوش اخلاقی تھی جس کے سبب سے دیوبندی مسلک کے مخالفین یا غیر جانبدار حلقے بھی ان پر اعتماد کرتے تھے اور ان کی رائے اور مشورہ سے مستفید ہوتے تھے اس طرح وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ان چند اکابر کی صف میں شامل تھے جن پر مسلمانوں کی اکثریت کو اعتماد و اطمینان تھا اور ان کو وہ اپنا متفق علیہ عالم سمجھتے تھے، اسی وجہ سے جب ان کی ایماء پر ’’مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور دیوبندمیں اس کا اجتماع ہوا تو علمائے ہند کی اس اہم مجلس کے وہ صدر بنائے گئے اور اس معزز عہدے پر تاحیات فائز رہے، ہندوستانی مسلمانوں کے اہم علمی و ثقافتی اداروں ندوۃ العلماء، مظاہر العلوم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ میں بھی وہ یکساں احترام کے ساتھ مدعو کئے جاتے تھے۔ وہ ایک بلند پایہ عالم اور ممتاز خطیب اور فاضلِ اہل قلم ہی نہ تھے بلکہ اسلافِ دیوبند کے طرز پر احسان و عرفان اور اخلاص و ایقان کی دولت سے بھی مالا مال تھے، وہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ تھے اور ہندو پاک میں ان کے مریدوں کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے یہی گہری روحانیت ان کی زندگی کے ہر دور میں نمایاں رہی ۔ اخیر میں چند ذاتی تاثرات و واقعات کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ۱۹۵۵ء کے بعد اپنے وطن بھوج پور کے مدرسہ اشرفیہ کے سالانہ جلسوں میں آپ کی زیارت کا شرف اور آپؒ کے وعظِ حسنہ کی سماعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۹۶۱ء میں دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالب علمی کے بعد سے ان کی مجلسوں میں اکثر حاضری کی عزت حاصل ہوئی بہت سے ملفوظات میرے پاس قلم بند ہیں ، ان مجلسوں میں سوالات کی پرچی بڑھا دیتا اور حضرت مولاناؒ ان کے شافی جواب عنایت کرتے۔ رئیس احمد جعفری ندویؒ کی فرمائش پر میں نے مولانا مرحوم سے مولانا محمد علی جوہرؒ اور علماء دیوبند کے تعلق پر کچھ لکھنے کی درخواست کی تو مولانا مرحوم نے ایک مختصر مضمون سپردِ قلم کرکے میرے سپردکیا وہ مضمون جعفری صاحب کی مرتبہ ’’علی برادران‘‘ میں لاہور سے اور ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کے ۱۹۶۴ء کے کسی شمارہ میں شائع ہوا، دیوبند کے ایام طالب علمی کی ایک خوش قسمتی حضرت حکیم الاسلامؒ کے ہفتہ وار درس ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں شرکت بھی ہے جس کا سلسلہ حضرت کے اسفار کے سبب قائم نہیں رہا انہیں ایامِ طلب میں مولانا مفتی ظفیر الدین صاحبؒ (مرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند) کے ساتھ حضرت مولانا کے قیمتی کتب خانہ کی ترتیب جدید میں شرکت کا موقع بھی ملا جس میں مولانا گیلانیؒ کے ذاتی ذخیرے سے بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ ۱۹۶۴ء ہی کے آس پاس محدث جلیل شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ اپنے تبلیغی دورے میں دیوبند بھی تشریف