حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مخالف سب کے دل موہ لیتے اور اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے، ان کی تقریروں کی یہی کشش تھی جس کے سبب وہ ہمیشہ ہند و بیرونِ ہند کے سفر پر رہتے تھے اور وہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی شہر ان کی تقریر سے محروم رہا ہو۔ تقریروں کی طرح ان کی تحریریں اور کتابیں بھی (جن کی تعداد قریب ڈیڑھ سو ہے) ان کے رنگ و تقریر کی حامل ہیں او ران کے اندر علمیت و روحانیت اور موادِ اسلوب کی بہت سی خوبیاں موجود ہیں اور ان میں اکثر کتابیں بہت اہم موضوعات پر ہیں اور انہوں نے عصرِ حاضر میں اسلام کی تفہیم و ترجمانی میں اپنا خاص کردار ادا کیا ہے اور عوام و خواص کی دینی تربیت و رہنمائی میں بڑا اہم حصہ لیا ہے۔ ادارہ (تاج المعارف) دیوبند کے ذریعہ ان کی بہت سی کتابیں پابندی کے ساتھ شائع ہوئیں اور انہوں نے اسلامیات کے اردو ذخیرے میں مقدار و معیار کے لحاظ سے بیش قیمت اضافہ کیا۔ ان کی سب سے بڑی قابلِ قدر اور لائقِ تقلید خصوصیات میں مسلک اہل سنت والجماعت میں ان کی وفاداری و وابستگی، علماء سلف میں قدردانی اور ان کے لئے عذر خواہی، اکابرِ امت سے استناد اور ان پر اعتماد اور مشاہیرِ اسلام کے علمی و عملی کارناموں کی روشنی میں اجتہاد اور ان کے علمی و ثقافتی ورثہ سے فراخ دلی اور وسیع النظری کے ساتھ استفادہ، اسلام کے ماضی سے خوش گمانی اور حال و مستقبل کی طرف سے امید پروری کے ساتھ فکر مندی، فکر ولی اللہی اور اس کے حامل و امین اکابرِ دیوبند خصوصاً حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے گہرے اسلامی افکار پر عبور اور ان سے عقیدت کوبنیادی اہمیت حاصل ہے، اس دور میں (مولانا سندھیؒ کے بعد) وہ مسلک دیوبند اور مولانا نانوتویؒ کے متکلمانہ و مجتہدانہ سلسلے کے سب سے بڑے مفکر حکیم اور شارح و ترجمان اور اپنے طرز پر حکمت قاسمیہ کے آخری حامل و امین اور علمِ کلام کے دیوبندی دبستان کے عقائد و مقاصد کے سب سے بڑے نمائندہ تھے۔ میں کہ میری نوا میں ہے آتشِ رفتاں کا سراغ میری تمام زندگی کھوئے ہوئوں کی جستجو اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے دوسرے مکاتبِ خیال کی خدمات کی قدرو تحسین اور ان کے بارے میں ہمدردانہ رویہ اور معتدل و متوازن رائے رکھنا، تلخ کلامی، بہتان طرازی اور افترا پردازی و عدم رواداری سے اجتناب، اپنے مخالفوں کے ساتھ عفو و تحمل، نرم و خوش مزاجی کا برتائو، ان کی فکر و شخصیت دونوں کا امتیاز خاص تھا اور وہ حافظ کے اس شعر کے بہترین مصداق تھے۔ آسائشِ دو گیتی تفسیرِ ایں دو حرف است بادوستاں تلطف با دشمناں مدارا