حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
لائے اور دارالعلوم کی زیارت سے بہت مسرور ہوئے۔ دارالحدیث کی تقریر میں انہوں نے فرمایا کہ ہندوستانی اہل علم اور علماء دیوبند کی اہم تصنیفات کا عربی میں ترجمہ ہو تو بڑی علمی خدمت ہوگی اور اس سے عالمِ اسلام میں استفادے کی راہ کھلے گی اس سلسلہ میں انہوں نے مولانا گیلانی کی ’’تدوینِ حدیث‘‘ وغیرہ کا خصوصی تذکرہ کیا تھا، طلبۂ دارالعلوم سے شیخ ابوغدہ کے خطاب کے اکثر جملے مرصع و مقفیٰ تھے۔ ان کا ایک جملہ اب تک کانوں میں گونج رہا ہے ’’نقد الجاہل فی الکیس و نقد العالم فی الکراریس‘‘ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ندوۃ العلماء کے جشنِ تعلیمی ۱۹۷۵ء میں آپ کی زیارت ہوئی اور تقریر بھی سنی، پھر مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس رانچی ۷۸ یا ۷۹ء میں پھر آپ کی زیارت ہوئی اور یک جائی کا موقع ملا، رانچی ہوائی اڈہ پر حضرت مولانا علی میاں صاحبؒاور حضرت حکیم الاسلامؒکو رخصت کرنے حاضر ہوا تو اس موقع پر مولانا علی میاں صاحبؒ نے حضرت حکیم الاسلامؒ سے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ’’یہ آپ کے مولوی شمس صاحب عرصہ سے میرے ساتھ ہیں ‘‘ اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ سبھی اکابرِ دیوبند ’’حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک سے وابستہ یا اس کے ہوا خوار ہیں ‘‘۔ اس کے بعد مارچ ۱۹۸۰ء میں اجلاسِ صد سالہ کے موقع پر دیوبند کے اس عظیم یادگار اجتماع میں آپ کی زیارت اور خطاب سے مشرف ہونے کا موقع ملا اور آپ کی اقتدا میں اس نمازِجمعہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جس کے نمازیوں کی تعداد میدانِ عرفات کے حاضرین کے غالباً برابر تھی۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی یادگار شخصیت اور فقید المثال ہستی پر یہ مختصر مضمون لکھ کر اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے ان کی مفصل سوانح عمری کی ضرورت ہے، خصوصاً ان کی علمی خدمات پر مفصل تبصرے کی بھی ضرورت ہے کیوں کہ وہ اپنے طور پر اکابرِ دیوبند کی آخری یادگار اور اپنی مثال آپ تھے، ان کے دم سے حکمتِ قاسمیہ اور دبستانِ دیوبند کی دیرینہ روایت قائم تھی اور تسلسل کسی نہ کسی طرح برقرار تھا، اس دور قحط الرجال میں دور دور تک آپ کا ثانی تو درکنار آپ کا بدل بھی نظر نہیں آتا جس کی شخصیت کے آئینہ میں اکابر و اسلاف کی کچھ جھلکیاں دیکھی جاسکیں ۔ افسوس صد افسوس کہ داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے ……v……