حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
یادگار حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب قاسمیؒ نے اس دارِ فانی کو الوداع کہی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ حضرت مولانا مرحوم کی ہشت پہلو شخصیت کا نمایاں وصف ان کی جامعیت و ہمہ گیری، علم و ثقافت کے مختلف پہلوئوں میں ان کی عالمانہ نظر کی گہرائی اور فکر کی وسعت و گیرائی تھی جو دارالعلوم دیوبند کے اکابر کا فیضان تھی۔ علومِ اسلامیہ کی تقریباً تمام ہی شاخوں پر ان کی نظر تھی، منقولات کے ساتھ معقولات، بنیادی اسلامی علوم (فقہ و حدیث و تفسیر) کے پہلو بہ پہلو تصوف و کلام و مناظرہ اور ان کے ساتھ شعرو ادب بھی آپ کے گلشنِ فضل و کمال کے غنچہ و گل تھے جن کے رنگ و بو سے ان کی دل کش و دلنواز شخصیت عبارت تھی۔ بہارِ عالمِ حنش و دل و جاں تازہ می دارد برنگ اصحابِ صورت را بہ بوار بابِ معنی را اسی جامعیت کے ساتھ انہوں نے علومِ اسلامیہ کی دیرینہ روایت کا تسلسل قائم رکھا اور اس ثقافتی امانت و سرمایہ کو جو حضرت شاہ ولی اللہ تک پہنچی تھی اسے اپنے اکابر کے ہاتھوں سے لے کر نئی نسلوں کے حوالے کیا اور عصرِ حاضر میں اس کی معنویت و اہمیت کو مزید اجاگر کیا اور نئے مسائل و حالات کے پیش نظر اسلامی تعلیمات کے استحکام و بقاء اور نشوو نما کا ماحول پیدا کرنے والے اور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں علمی و معاشرتی فضا کو سازگار بنانے اور عوام و خواص کو اسلامی پیغام و احکام کی حکمت و مصلحت سے آگاہ کرنے کا فرض بخوبی انجام دیا۔ اپنی اسی جامعیت کے سبب انہوں نے اسلاف و اکابرِ دیوبند کے طرز پر تمام علومِ اسلامیہ کی طرف توجہ مرکوز رکھی اور بر صغیر کے مسلمانوں اور ان کے علمی و ثقافتی مرکزوں کو اپنی تقریر دل پذیر اور عالمانہ تحریر سے فیضیاب کیا۔ آپؒ کی تقریروں میں شاید اللہ تعالیٰ نے وہی تاثیر و دل کشی رکھ دی تھی جو کبھی ان کے نامور دادا حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تقریروں میں ہوتی تھی جس کے ذریعہ انہوں نے مباحثۂ شاہ جہاں پور اور میلہ خدا شناسی کے معرکے سر کئے اور آریہ سماجی پنڈتوں کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ عالمانہ، حکیمانہ اور متکلمانہ تقریروں میں شاید ان کا کوئی دوسرا معاصر ان کا ہم سر و ہم چشم نہ تھا، کتاب و سنت اور علماء امت کے علمی ذخیرے سے برجستہ و برمحل استفادہ، منطقی استدلال، داعیانہ جذبہ، مجاہدانہ نظر، حکیمانہ اُسلوب اور خطیبانہ حاضر دماغی، نفسیات شناسی اور ششتہ زبانی و شگفتہ بیانی نے مل جل کر ان کی تقریروں کو ایسا حسنِ قبول بخشا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی توفیق و مقبولیت سے نوازا تھا کہ وہ موافق و