حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
سرچشمہ اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی راہ ہے۔ اس سے امت کے اندر مضبوط اجتماعیت پیدا ہوگی اور اس کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس جذبے کی آبیاری اور امت کے اندر دعوتی اسیرت پیدا کرنے کے لئے حضرت حکیم الاسلامؒ کی یہ تصنیف ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس کو زبان سے زیادہ عام کرنے اور مختلف زبانوں میں اس کی اشاعت وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ ’’صد حیف! آج یہ منصوبہ مسلمانوں سے تقریباً ختم ہوچکا ہے اور اسی لئے اقوام غیر کی نسبت سے ان کی برتری اور تولیت جس نے انہیں خیر امت بنایا تھا افسانۂ ماضی ہو کر رہ گئی ہے نیز اسی لئے یہ امت اقدامی امت ہونے کے بجائے جو اس کی اصلی شان تھی محض دفاعی بن کر رہ گئی ہے اور ظاہر ہے کہ دماغ محض نہ صرف یہ کہ ارتقاء کا راستہ بند کر دیتا ہے بلکہ زوال و خفا کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے‘‘(۶) …………………………………………… (۱)حضرت مولانا محمد طیب قاسمی، دینی دعوت کے قرآنی اصول، ص:۱۰-۱۱ (۲) ایضاً، ص:۱۱-۱۲ (۳) ایضاً، ص:۲۰ (۴) ایضاً، ص:۲۸ (۵) ایضاً، ص:۶۷ (۶) ایضاً، ص:۱۲ ……v……