حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
تھی،مرشد تھانوی حکیم الامت کا سر مدرسہ کی دستار فضیلت اورجسم خانقاہ کے خرقہ ٔ مشیخیت سے اس طرح آراستہ تھا کہ خرقہ ودستار ایک دوسرے کا جزمحسوس ہوتے تھے،غالباً انہی دونوں کی وابستگی اور لزوم نے مرشدتھانوی کو صحیح معنیٰ میں حکیم الامت بنایا تھا۔ شریعت وطریقت کی جامعیت کے جس دیوبندی طرز فکر کو مرشد تھانوی نے اپنے مخصوص ومستحکم پیمانے میں ڈھالا تھا۔اور تربیت سلوک کا جو منفرد انداز اپنایا تھا، حضرت حکیم الاسلامؒ کو اس سے طبعی مناسبت تھی۔وہ سیاست کے خارزار ہنگاموں کی دنیا سے طبعاً بیزار تھے۔ اور یہ ہی تھانوی طریق تربیت کا بنیادی جز تھا۔ استفاضہ اور استفادہ کا یہ سفر انھوں نے اپنے ہمدرس وہم جماعت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ مفتی اعظم پاکستان کی معیت ورفاقت میں شروع کیا،یہ انہی دونوں حضرات کی خصوصیت ہے کہ یہ مکتب سے لیکر مرشد کے آستانہ تک ایک دوسرے کے شریک ورفیق رہے،دونوں ہی نے یکے بعد دیگرے سلوک کی منزلیں طے کرنی شروع کیں تو باہم ایک دوسرے کے لیے باعث رشک بنے،حتیٰ کہ دونوں کو مرشد تھانوی نے خلافت سے سرفراز کیا۔اور دونوں ہی علم وہدایت کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے،ایک کی تابانی سے مطلع پاکستان چمکا اور دوسرے کے انوارِ قلب ونظر سے بر صغیر افق تا افق جگمگایا۔ رشدوہدایت کا یہ سلسلہ ۱۹۴۷ء کے بعد زیادہ فروغ پذیر ہوا۔منصب اہتمام کی گوناگوں مصرفیتوں کی بناپر مستقل خانقاہی نظم قائم نہ ہونے کے باوجود حضرت حکیم الاسلامؒ کی طرف لوگوں کا رجوع ہوا۔ چہرہ کی دل کشی ،نگاہوں کی پاکیزگی اور پیشانی کانور دیکھنے والے کو پہلی ہی نظر میں عقیدت واحترام کی آنکھیں بچھانے پرمجبورکردیتاتھا، ان کی مجلس ولیوں کی مجلس کا اعلیٰ ترین نمونہ تھی اس میں کسی کی غیبت والزام تراشی کا گذر نہ تھا،علم کے نادر نکات بیان ہوتے، شریعت کے لطیف دقائق اور تصوف کے دلپذیر حقائق کی تشریح ہوتی۔سلف کے مؤثر اور عبرت انگیز تذکرے چھڑتے اور بصائر ومعارف کا اک دریا موجزن ہوتا۔ حکیم الاسلامؒ کی زبان سے موتی جھڑتے،یوں معلوم ہوتا کہ ایک آبشار علم ہے جو فکر ونظر کو سیراب اور قلب وذہن کو شاداب کر رہا ہے۔حضرت حکیم الاسلامؒ کے متوسلین میں دیہات کے سیدھے سادھے کسانوں سے لیکریونیورسٹیوں کے لیکچرار اور وزراء حکومت تک شامل ہیں ۔ بیعت کرنے والوں کو نہایت خاموشی اور سادگی سے اپنے مرشدکے طریق پر بیعت فرماتے اس کے بعددوازدہ تسبیحات کی تلقین،فرائض کی پابندی اوامر پر لزوم اور نواہی سے احتراز کی تاکید فرماتے، اختلافات سے بچنے،ہر معاملے میں اعتدال برتنے، متعلقہ ذمہ داریوں کو حتی الامکان ادا کرنے کی ہدایت فرماتے، دوسروں کے ساتھ حسن ظن سے کام لینے،طبقاتی اور مسلکی نزاعات سے بچنے، امت مسلمہ کے