حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اتحاد واتفاق کو ترجیح اور امت کی فلاح وبہبودی میں دلچسپی لینے کی ترغیب دیتے۔بیعت وارشاد کے رسمی طریق کو بھی لازمی قرار نہیں دیتے تھے،بیشمار لوگ جو بیعت کے لیے زیارت کی خواہش اور بالمشافہ ملاقات کی آرزو رکھنے کے باوجود حاضری کی سکت اوروقت کی گنجائش نہیں رکھتے تھے ان کو بذریعہ مراسلت بیعت فرمالیتے مریدین اپنے احوال بذریعہ مکاتبت پیش کرکے اصلاح سے مستفیض ہوتے۔ نرم خوئی اورنرم گوئی ایک وصف تھا جو حضرت حکیم الاسلامؒ کی رفتار گفتار اور کردار کا جزو لاینفک تھا۔گھر سے لے کر باہر تک اور نظم وانصرام سے لے کر بیعت وارشاد تک اس وصف کی چھاپ ہرچیز میں نمایاں تھی۔ حلم وبردباری اور اکرام مسلم واحترام آدمیت کے وعظ بہت کہے سنے جارہے ہیں اور اکرام مسلم کی اصطلاح تو اس دور کی اک مسلمہ دینی اصطلاح قرار پاگئی ہے۔مگر واقعہ یہ ہے کہ اسی اصطلاح کا انطباق بھی اک خاص دائرہ کی حد تک ہی کیا جاسکتا ہے۔اکرام مسلم پرعمل کی صحیح مثال حضرت حکیم الاسلامؒ کے زبان وقلم کے سوا کسی بڑے سے بڑی دینی شخصیت کے یہاں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ماضیٔ قریب کے گزشتہ چند سال جو دیوبند اور شاید بر صغیر کے علماء کی تاریخ کا سب سے المناک باب کہے جاسکتے ہیں اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ اس جاں گسل اور صبر آزما دور میں بھی آپؒ ہی علمائے دیوبند کے’’منصور وقت‘‘نکلے،زندگی کے اس آخری دور میں جب خانقاہوں نے دہشت زدگی کے عالم میں ہونٹ سی لیے تھے اور علمائے روزگار عاجزی، خاکساری ، اور خداترسی کی قبائیں پہن کر اپنے زبان وقلم سے آپؒ کے بے داغ سینے پر پتھر برسارہے تھے اس وقت بھی آپؒ نے کوئی سقیم لفظ قلم سے لکھا نہ زبان سے نکالا۔اور ارادتمندوں کے اس اصرار بے حد پر کہ’’کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں ، زبان سے صرف یہ فقرہ اداکیا جسے تصوف کا مغز،ولایت کا حاصل اور انسانیت کا جوہر کہا جاسکتا ہے کہ: ’’میں نے اپنے لیے صبر، سکوت اور استغناء کو پسند کر لیا ہے‘‘ بلاشبہ یہ جملہ آب ِ زرسے لکھنے کے قابل ہے اور اسے قطبیت کا سرمایہ کہا جاسکتا ہے۔ آپ کا حلقہ ٔ ارشاد وبیعت ہند وپاک ،بنگلہ دیش،ایران،برما،ممالک عربیہ، یورپ،افریقہ اور امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ تأثرات محب مکرم جناب سید ازہر شاہ قیصر کی فرمائش پر سپرد قلم ہیں ،ورنہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے روحانی اور عرفانی مقام کی تشریح اور اس کا تعارف کسی صاحبِ دل اور معارف آگاہ اہل قلم ہی کاحق ہے جو امید ہے کہ کسی وقت کسی باتوفیق قلم سے ضرور منصہ شہود پر آئے گا۔وبا للہ التوفیق۔ ……v……