حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ذمے داریوں کے پردے میں چھپی ہوئی تھی،بالخصوص ان کی شخصیت کا باطنی اور عرفانی رخ ان کے دوسرے اوصاف میں مستور ہوکر رہ گیا تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ علم ظاہر وباطن کی یک رنگی اور شریعت وطریقت کی ہم آہنگی ہی علماء دیوبند کا خاص وصف ہے اور دیوبند کے ہر فرد میں اس خوشگوارامتزاج کا اثر موجود ہے،البتہ ذوقی اور طبعی فرق کے لحاظ سے کسی فرد پر طریقت کا رنگ غالب ہوجاتا ہے اور کسی پر شریعت کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے۔چناں چہ حضرت حکیم الاسلامؒ نے دو آبہ کے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہ کئی پشت سے علم وحکمت اورمعرفت وسلوک کا شہسوار تھا،اس کے گردوپیش کی فضا علم ظاہر سے مزین اور سوز باطن سے روشن تھی یہ ہی وہ ماحول تھا جہاں حضرت سید احمد شہید ؒ کو مریدان با صفا اور مجاہدین جانفروش کی کھیپ کی کھیپ ملی تھی،اسی علاقے میں ان بزرگان ِ وقت کی خانقاہیں قائم تھیں جن کے نفس گرم کی تائید سے جماعت دیوبند وجود پذیر ہوئی جو علوم ظاہر وباطن کے لیے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاح وتبلیغ کے تقاضوں کی تکمیل اور ملکی وملی حقوق کی ادائیگی میں ہمیشہ پیش پیش رہی ۔ حضرت حکیم الاسلامؒ پر اپنے بچپن سے بزرگوں اور اکابر کی خصوصی توجہات تھیں ۔ ان کے اساتذہ شروع سے اہل دل اور صاحب باطن حضرات رہے نسبت ِ قاسمی کی رعایت سے ان بزرگوں نے موصوف کی علمی اور ظاہری تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ تزکیہ واصلاح قلب کا بھی پورا پورا خیال رکھا۔ دیوبندیت کی عملی تشکیل کے بانی اعظم مولانا قاسم نانوتویؒ کے نسبی تعلق نے حضرت حکیم الاسلامؒ کو تمام اکابر ِ دیوبند اورفیض یافتگان قاسمی کا مطمح نظر اور مرجع محبت بنادیا تھا،ان کی تعلیم وتربیت کا نظم مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ مہتمم سادس دارالعلوم دیوبند نے جس شفقت واہتمام کے ساتھ کیا وہ بزرگانہ تربیت کی بہترین مثال ہے اور اس کے طبعی اور لازمی نتیجے کے طور پر نبیرئہ حضرت حکیم الاسلامؒ کو تاریخ دیوبند میں وہ مقام ملا جو منصب اہتمام دارالعلوم پر فائز ہونے والی کسی دوسری شخصیت کو نہ میسر آیا اور نہ آئے گا۔ تدریس،تالیف، تقریر اورمنصبی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ حضرت حکیم الاسلامؒ کا اصلاحی تعلق حضرت شیخ الہندؒ سے قائم ہوا جو آپ کے استاد بھی تھے۔تربیت ِ سلوک کے ابتدائی منازل اپنے مشفق استاذ اور مرشد اول کے زیر سایہ طے کئے۔حضرت شیخ الہند ؒ کی رحلت کے بعد مجدد ملت حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی طرف رجوع کیا جو درحقیقت دیوبند کے سرخیل بھی تھے اور اپنے مخصوص انداز تربیت کے لحاظ سے شریعت وطریقت کے بہترین جامع بھی۔ تھانہ بھون کی خانقاہ ظاہر وباطن کے معقول امتزاج اورعلم وعمل کے دلآویز سنگم کا بہترین نمونہ