حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
کے اک فردفرید تھے۔اس ایک صدی میں بر صغیر میں دینی ، علمی اور ملی خدمات کے اعتبار سے جو قد آور شخصیتیں گذری ہیں حکیم الاسلامؒ اسی صفت کی عظیم شخصیت تھی اور وہ جتنی عظیم تھی اتنی منکسر المزاج اور حلیم الطبع تھی۔ حسب ونسب،علم وفضل اور خدمت دین کے اعتبار سے حکیم الاسلامؒ کا مقام جماعت دیوبند کی اس تیسری پشت میں سب سے انچا تھا وہ ان ساری تابناک روایات کے امین تھے جو دیوبندی مکتب ِ فکر کے مؤسس حجۃ الاسلام الامام محمدقاسم النانوتویؒ قدس سرہ العزیز نے قائم کی تھیں وہ ان تمام اقدار کے پاسبان اور محافظ تھے جو دیوبندیت سے وابستہ ہیں ’’سخن دلنواز اور جاں پُر سوز‘‘ کاروان ِ دیوبند کے اس امیر کا طرئہ امیتاز تھے،اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قافلہ ٔ دیوبند کی سربراہی کے منصب پر ایک سے ایک بے بدل شخصیت فائز رہی ہے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ حکیم الاسلامؒ کی ذات جن گونا گوں صفات کی حامل اور مختلف خوبیوں کی جامع تھی اس کی مثال تاریخ دیوبند کے نہ ماضی میں موجود ہے نہ مستقبل میں متوقع۔ ان کی تعلیم وتربیت اسی بزرگانہ ماحول اور قدیم فضا میں ہوئی تھی جو بزرگان دیوبند کی پروردہ تھی۔علوم عصری کے کسی استاد کے سامنے انھوں نے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیاتھا۔ان کی ساخت وپرداخت میں جدید تعلیم وتربیت کا کوئی ادنیٰ دخل نہ تھا لیکن اپنی فکری پختگی، علمی برتری اور ذہنی بلندی کے دوش بدوش قلبی وسعت، قاسمی نسبت اور شخصی عظمت کی بناپر وہ ہر حلقے میں مقبول ومحبوب تھے۔خواہ وہ علمائِ قدیم کی انجمن ہو یا دانشوران وقت کا اجتماع ہو،خصوصی مسائل پر کوئی مجلس ہو یا عوامی انداز کا کوئی جلسہ ہو،خالص دینی اور دعوتی موضوع پر کوئی اجلاس ہو یا معاشرتی اور ملّی مسائل پر کوئی سینمار ہو۔ ان کی خوش گفتاری اور شیریں بیانی،لہجے کی دلربائی اور نکتہ آفرینی،مضـمون کی فراوانی اور موضوع کی رعنائی مجمع کو لوٹ لیتی تھی ،ان کا اپنا حلقہ سچ پوچھئے تو وادیٔ گنگا وجمنا اور کاویری سے برہمپتر کے ڈیلٹا تک یا پنجاب وسندھ کے میدانوں سے کابل وکاشغرتک محدود نہ تھا۔جماعت دیوبند کے وہ پہلے صدر نشیں تھے جس کی زلفوں کے اسیر دنیا کے ہر بر اعظم میں موجود ہیں ،دنیا کے جس قابل ذکر حصّے میں بھی اردو داں مسلم آبادی موجود ہے وہاں انھوں نے مؤثر اور دل نشیں مواعظ سے بے شمار دلوں کی روحانی بستیاں آباد کیں ۔ ہر اہم ملک میں انھوں نے جا جاکر خطاب فرمایا وہاں ان کے دلآویز خطابات کے ٹیپ لوگوں کے پاس موجود ہیں جو انھیں جان ودل کی طرح عزیز ہیں ۔ بر صغیر کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا باقی رہ گیا ہو جہاں حضرت حکیم الاسلامؒ کے قدم نہ پہنچے ہوں ، وہ ہر مجلس کے چراغ اورہر انجمن کے صدرتھے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت ان کی شیوہ بیانی اور منصبی