حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ایک ایسی مضبوط چٹا ن تھے جس سے ٹکر ا کر تما م دھا رے خود ہی اپنا رخ پھیر لینے پر مجبور تھے لیکن جس دن سے یہ پہاڑ ہل گیا ہے سیلاب کا زور تصورات کے بہت سے محلو ں کو تنکو ں کی طر ح بہا ئے لئے جا رہا ہے۔ ہمیں اردو ادب کی تا ریخ سے شکا یت ہے کہ کم و بیش ڈیڑھ سو کتابوں کا یہ عظیم مصنف آج بھی ادب کی دنیا میں غیر معروف اور تا ریخ ادب کے صفحا ت میں گمنام ہے،حا لانکہ اس عظیم صاحب قلم اور صاحب طر ز ادیب کو اس کی خدمات پر اردو ادب کا بلند مقام ملنا چاہئے تھا، ہم یہ تو مان سکتے ہیں کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے قلم میں شبلی کا زور بیان او ر ابو الکلام آزاد کی شو کت الفا ظ یا عبد الما جد دریا آبا دی کی زبان نہیں مگر ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ اردو ادب کے لئے ا ن کی خدمات کسی دوسرے مصنف سے کسی در جہ میں کم ہیں ان کی آنکھ کی کہا نی خود ان کی زبانی اردو شعر وادب کا نقش لا ثانی ہے۔ میر ے نزدیک دارالعلوم دیوبند اور حضرت مہتمم صاحبؒ ایک دوسرے کا صحیح تعارف ہیں ، اگر کو ئی مہتمم صاحبؒ کوجاننا چا ہے تو بس اس کے سانے دارالعلوم کا آئینہ رکھ دیجئے،مہتمم صاحبؒ کی علمی، سیاسی، فکری اور اخلا قی زندگی کا ہر ہر گوشہ چمک اٹھے گا اور اگر کسی کو دارالعلوم کے با رے میں معلوما ت حا صل کر نی ہوں تو اسے مہتمم صاحب کا آئینہ دکھا یئے کہ اس میں دارالعلوم کے علوم وفن کی پو ری کا ئنات تابناک نظر آئے گی۔ مہتمم صاحبؒ اپنی نر م پا لیسی اور شان صدیقی کی بنا ء پر دارالعلوم کے دل کی دھڑکن تھے، عام طو رپر کہا جا تا ہے کہ انھو ں نے آج تک اپنے قلم سے کسی ادنیٰ ملا زم کو بھی بر خاست نہیں کیا ، ان کی اسی ادا پر طلبہ، اساتذہ اور عملہ سب فر یفتہ و گر ویدہ تھے، اور یہی چیز پوری دنیا میں دارالعلوم کو بحیثیت ادارہ ایک مثالی مہتمم کی نا قابل فر اموش خدمات سے ممتاز کر تی ہے جس کی دوسری کو ئی مثا ل مشکل ہی سے کہیں مل پا ئے گی۔ میں نے حضر ت مہتمم صا حبؒ سے مشکو ٰۃ شریف پڑھی ہے اور مجھے ذاتی طو ر پر تجر بہ ہے کہ مہتمم صاحبؒ چھو ٹوں پر شفقت اور ہر ایک کے لئے رافت و رحمت کا مجسمہ تھے ابھی کو ئی چار سال پہلے کی با ت ہے کہ میں نے اپنے لڑکے محمو د الر حمن سلمہٗ کی پیدائش کی ایک تقریب میں حضر ت کی شرکت کو ضروری سمجھ کر خدمت میں حا ضر ی دی، مدعا عر ض کیا منظو ر ری عطا ہو گئی پھر کسی ضروری سفر کی مجبو ری سے شرکت غیر یقینی ہو گئی تو آپ نے مدرسہ اصغریہ میں مجھے اس کی اطلا ع کر ائی پھر سفر سے واپسی پر مجھے طلب فر مایا اور خو د ایک تا ریخ دے کر پچھلے وعدے کی مکمل تلا فی فر ما دی۔ حضر ت مو لانا عبد الر حیمؒ کے ساتھ میں دارالعلوم میں داخل ہونے سے پہلے با رہا حا ضر ہو ا، اور طیب منزل