حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
عارف باللہ نے دوسرے عارف باللہ کے بار ے میں سنایا ہے۔ لہٰذا لیجئے سنئے اور پڑھئے اور ضرور پڑھئے، سنئے اور اس بے مثال تواضع پر سر دھنئے اورآخرمیں بیان کا حوالہ بھی دیکھ لیجئے گا تاکہ ناظرین میں سے جس کا جی چاہے مراجعت کرسکے! ہاں تو کیا فرماتے ہیں حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاپگڈھی: اب سے تقریباً چالیس سال (بلکہ پچاس سال) قبل کا واقعہ ہے۔ کہ قصبہ مئو آئمہ ضلع الہ آباد میں ایک بہت بڑا جلسہ ’’احناف کا نفرنس‘‘ کے نام سے منعقد ہوا تھا، جس میں ہندوستان کے مشہور چوٹی کے علماء تشریف لائے تھے۔ مولانا عبدالشکور صاحب لکھنویؒ، مولانا ابو الوفاء صاحب شاہجہانپوریؒ، مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ، اور دوسرے بہت سے علماء تشریف لائے تھے۔ جمعہ کا دن تھا۔ نماز جمعہ کی امامت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ نے فرمائی اور جلسہ کاصدر بھی انہی کو مقرر کیا گیا۔ پہلے معذرت فرمائی اس کے بعد تشریف لائے اور کرسیٔ صدارت پر بیٹھنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اس وقت اکابر کی موجودگی میں کرسیٔ صدارت پر بیٹھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی مگر امتثالاً للامر بیٹھ گیا اور پھر ایک واقعہ یاد آیا جس سے مجھے تسلی ہوگئی۔ حضرت مولانا پرتاپگڈھیؒ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ: اس کے بعد حضرت مہتمم صاحبؒ نے حضرت عمر ؓ کا مندرجہ بالا واقعہ ذکر فرمایا، پھر ارشاد فرمایا کہ آپ انصاف سے بتلائیں ؟ جس وقت ان کا غلام اونٹ پرسوار ہوتا اور خود وہ نکیل پکڑ کر پیدل چلتے تھے اس وقت کیا اس غلام کے دل میں اس کا وسوسہ بھی آتا ہوگا کہ میں حضرت عمرؓ سے افضل ہوں ؟ ہرگز نہیں ۔ اسی طرح یہاں سمجھ لیجئے کہ میری مثال اس وقت بالکل اسی غلام جیسی ہے اور جن اکابر نے مجھے یہاں بیٹھنے کا حکم فرمایا ان کی حیثیت فاروق اعظمؓ جیسی ہے۔ اللہ اکبر! کس عظمت کی حامل تھی وہ شخصیت! اور اس گہری تواضع میں اللہ تعالیٰ نے حکیم الاسلامؒ کی ذاتِ والا کو کتنی بلندی اور رفعت بخشی تھی کہ ان کی نورانی ذات اور جگمگاتی زندگی عظمت کردار کا مظہر بن گئی تھی تذکرہ نگار کو یاد ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ ایک مرتبہ دورانِ سفر مغل سرائے (بنارس) میں مختصر وقفے کے لئے پلیٹ فارم پر جلوہ افروز ہوئے اور اہل محبت نے پروانوں کی طرح شمع فروزاں کو گھیر رکھا تھا تو ابرار و اخیار نہیں بلکہ ’’اغیار کی زبانوں پر بے ساختہ یہ جملہ آیا کہ: ارے ای دیوتا ہیں ‘‘ بہر حال بات کہاں پہنچ گئی؟ وہ واقعہ تو ضرور پورا ہوا مگر بات نہیں پوری ہوئی کیوں کہ حضرت مولانا پرتاپگڈھیؒ کا بیان ہنوز باقی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ: