حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مطابق ہو جائے گا تو ہم بغیر جنگ کئے ہی قلعہ کا دروازہ کھول دیں گے، چنانچہ مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت عبیدہ ابن الجراح نے خلیفۃ المسلمین حضرت عمر ابن خطابؓ کے پاس یہ اطلاع بھیجی، تو آپ بیت المقدس کے لئے روانہ ہوگئے، بوقت روانگی آپ کا یہ حال تھا کہ پیوند لگے ہوئے معمولی کپڑے زیب تن فرمائے ہوئے اور اونٹ پر سوار تھے، یہ دیکھ کر اسلامی سپہ سالاروں نے آپ سے درخواست کی اور عرض کیا کہ آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں ۔ لہٰذا اچھے اور صاف کپڑے پہن لیں ۔ اور گھوڑے پر سوار ہوکر تشریف لے چلیں ۔ حضرت عمرؓ نے لوگوں کی اس درخواست پر کپڑے بدل لئے اور اونٹ سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہوگئے۔ مگر ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ فرمانے لگے کہ: میرا نفس ان چیزوں کی وجہ سے متغیر ہو رہا ہے۔ لائو میرے پرانے کپڑے اور میرا اونٹ میں اسی پر چلو ں گا۔ اور یہ فرمایا کہ: نَحْنُ قَوْمٌ اَعَزَّنَا اللّٰہ بِا لْاِسْلاَم۔ یعنی ہم وہ قوم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ عزت دی ہے۔ وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ یہ فرمایا اور پھر وہی پیوند دارکپڑے پہن لئے اور اونٹ پرسوار ہوکر تشریف لے گئے آپ کے ہمراہ ایک غلام تھا اس سے یہ طے فرمایا کہ ایک منزل تک میں سوار ہوکر چلوں گا اور تم اونٹ کی نکیل پکڑ کے چلو گے، اور ایک منزل تم سوارہوکر چلوگے اور میں نکیل پکڑ کر چلوں گا۔ چنانچہ اسی کے مطابق منزل بہ منزل سفر طے ہوتا رہا، جب آخری منزل آئی تو اس وقت غلام کے اونٹ پر بیٹھنے اور حضرت عمرؓ کے پیدل چلنے کی باری تھی، غلام نے عرض کیا کہ حضرت اب مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ سوار ہوجائیں اور میں پیدل چلوں مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں ، ایسا نہ کرونگا، کیوں کہ یہ خلاف عدل ہے۔ الخ‘‘ الغرض اسی طرح سے آپ قلعہ کے سامنے پہنچے کہ غلام اونٹ پر سوار تھا اور آپ اس اونٹ کی نکیل پکڑے پیدل چل رہے تھے۔ مخالفین نے قلعہ کے اوپر سے آپ کا حلیہ کتاب سے منطبق کرنا شروع کیا چنانچہ طابق النعل بالنعل یہی حلیہ ان کی کتابوں میں لکھا تھا کہ ایسے ایسے کپڑے ہونگے اور ان کا غلام اونٹ پرسوار ہوگا اور خود اس کی نکیل پکڑے ہوئے پیدل چل رہے ہونگے، بس اہل شہر نے اس کو دیکھتے ہی قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ اورشہر مسلمانوں کے سپرد کر دیا۔ الخ یہ واقعہ سیرت اور تاریخ اسلام کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اور تمام مشائخ اور علماء حضرات اس کو بیان فرماتے ہیں ۔ اور وہ یہاں بھی بقول حضرت مولانا پرتاپگڈھیؒ کے حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ نے یہی بیان فرمایا ہے اوریہی واقعہ اگلے واقعہ کی اساس ہے جو ایک