حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
میسّر ہوئی، حضرت مصلح الامت ؒ اور ان کے درسے وابستہ ہونے کے طفیل دارالعلوم دیوبند اور ہندوستان کے دیگر علماء کرام کو قریب سے دیکھنے اور ملاقات کرنے کے مواقع نصیب ہوئے، یہ حضرت مصلح الامتؒ کی برکت تھی جسے اللہ رب العزت نے اپنے اس بندے کو عطا فرمائی، ایک بہت خاص بات یہاں ناظرین و قارئین کے توجہ فرمانے کی ہے کہ الٰہ آباد نور اللہ روڈ پر ایک عظیم الشان سیرت کا جلسہ تھا۔ جس میں حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ خصوصی مقرر کی حیثیت سے یاد فرمائے گئے تھے، راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ سیکڑوں کا مجمع تھا اور الٰہ آباد واطراف کے علماء کرام بھی جلسہ گاہ میں حاضر تھے۔ مولانا قاری فیاض احمد صاحب دلدار نگری نے آپ کا تعارف کرایا تھا، تو اس تعارف میں حقیقت کے اعتبار سے احترام و آداب اور تعظیم کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے حکیم الاسلامؒ کی شخصیت کو اُجاگر کیا تھا، لیکن حضرت حکیم الاسلام نے بعد خطبہ اس طویل تعارف پر نکیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ مولانا موصوف نے جو کچھ بتلایا وہ ان کے حسن عقیدت و سعادت مندی کا ثبوت ہے مگر اس سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ وہ یہ فرماتے کہ دارالعلوم دیوبند کا ایک طالب علم حاضر خدمت ہے، اس متواضعانہ انداز پر مجمع پر ایک خاص تأثر پیدا ہوگیا تھا۔ راقم نے حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی زندگی کا مطالعہ کیا تو بایں کمالات و بلندیٔ درجات ان کی ’’تواضع‘‘ بہت ہی نمایاں نظر آتی ہے اور حقیقتاً اسی تواضع نے آپ کو بڑی بلندی عطا کر دی تھی۔ اسی سلسلہ میں ایک واقعہ زینت قرطاس کرنے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، جسے پڑھ کر مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم کو حضرت حکیم الاسلامؒ کے مقام بلند کا تصور نہیں ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ ان کے مزار کو پُرانوار بنائے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاپ گڈھیؒ جو ابھی قریبی دور کے بلند پایہ بزرگ گذرے ہیں ۔ انھوں نے اس واقعہ کو بڑے تأثر کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اور اس میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہٗ کے سفر بیت المقدس کا واقعہ مربوط ہے لہٰذا مضمون نگار اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاپ گڈھی کے ہی انداز بیان کو نقل کرے گا اور پورابیان پڑھنے کے بعد ہی صحیح طور پر اندازہ لگ سکے گا۔ لہٰذا حضرت مولاناؒ کے الفاظ میں پہلے حضرت عمر فاروق اعظمؓ کا واقعہ ملاحظہ کیجئے اس کے بعد حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کا۔ چنانچہ مولانا پرتاپ گڈھیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپ کے دور خلافت میں ، مسلمانوں کے لشکر نے جب بیت المقدس کا محاصرہ کیا تواہل شہر نے کہا کہ تم اپنے خلیفہ کو بلائو، ہماری کتاب میں ان کا حلیہ لکھا ہوا ہے، اگر