حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اس سلسلے کا ایک اور اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں اور حضرت حکیم الاسلامؒکی نکتہ سنجیوں سے محظوظ ہوں ، تحریر فرماتے ہیں : ’’اگر آپ کہتے تھے کہ نبی اکرمBکے معراج پر جانے کے وقت اللہ تعالیٰ نے شق صدر فرمایا یعنی سینہ کھول کر آپ کے قلب مبارک کو چاک کیا گیا اور اس میں حکمت و ایمان زیادہ سے زیادہ بھر دیا گیا، جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ اور پھر فرشتے نے برابر کردیا ، تو لوگ ہنستے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، دل کے اوپر زندگی کا مدار ہے، جب دل کھل گیا تو آدمی زندہ لاش نہیں رہ سکتا، لیکن آج کی ایجادات میں ایسے ایسے نازک آپریشن ہوتے ہیں کہ دل کو کھول کر اس میں کچھ بھر دیتے ہیں اور پھر سی دیتے ہیں لیکن انسان زندہ رہتا ہے، اس کی حرکت کو مشینوں کے ذریعہ قائم رکھ کر آپریشن کر دیا جاتا ہے تو جب مادی اسباب سے قلب کو شق رکھ کر آپریشن کردیا جاتا ہے تو جب مادی اسباب سے قلب کو شق کرنا ممکن ہے تو روحانی قوتیں مادی قوتوں سے زیادہ ہیں ۔ (۱۲) حضرت حکیم الاسلامؒکی مجالس کا رنگ بھی خالص حکیمانہ ہوا کرتا تھا، ایک مجلس میں عصمت انبیاء اور عصمت اطفال کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’بچوں میں جو معصومیت ہے وہ اس لئے ہے کہ ان میں گناہ کرنے کی قوت بیدار نہیں ہوتی، صرف مادہ موجود ہوتا ہے اور انبیاء میں وہ ساری قوتیں موجود ہیں پھر بھی وہ معصوم ہیں ، ارادے، اختیار سے تو عصمت دونوں میں موجود ہے ،مگر فرق اتنا ہے کہ انبیاء اختیاری معصوم ہیں اور بچوں میں غیر اختیاری عصمت ہے۔ یہ علم کے ساتھ معصوم اور بچے لاعلمی کے ساتھ معصوم، ایک کی عصمت کمال میں داخل ہے، ایک کمال میں داخل نہیں ، اگردو برس کا بچہ گناہ نہ کرے تو اسے کامل نہیں کہتے، اس لئے کہ نہ اس میں ارادہ ہے اور نہ قوت ہے۔ لہٰذا اس کے معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے اسے مجبوراً گناہ کرنے سے روک دیا ہے، وہ طاقت اس میں خدا نے ابھاری نہیں اس لئے وہ بے چارا اپنے ارادہ سے کچھ نہیں کر سکتا اور انبیاء میں ساری قوتیں موجود ہیں اور پھر بھی بچتے ہیں ، یہ ہے کمال اور اصول بھی یہی ہے کہ رکاوٹیں اور مواقع بہت ہوں اور پھر نیکی کرے تو وہ زیادہ قابل قدر ہے اور ایک یہ ہے کہ کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور نیکی کرنے کے لئے داعی ہی دواعی موجود ہیں تو ہے تو وہ بھی نیکی ہی مگر زیادہ عجیب و غریب نہیں زیادہ قابل قدر نہیں ۔(۱۳)