حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
چاہا، جس کا راز یہ ہے کہ گھر کی چہار دیواری میں محدود رہ کر انسان کی نگاہ اس کا تخیل، اس کی سعی اور اس کا علم سب محدود اور تنگ رہتے ہیں ، ان کی نگاہ گھر میں رہ کر خانگی امور تک محدود رہ سکتی ہے، اسے تمام شہر یا قوم سے کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا اس لئے نماز نے گھروں سے مساجد کی طرف سفر کرایا تاکہ انسان کے باطن و ظاہر میں وسعتیں نمایاں ہوں اور کوئی ایک مسلم بھی تنگ دل، تنگ ظرف اور تنگ حوصلہ باقی نہ رہے کہ جس کے سامنے صرف اس کا نفس اور اس کا گھر ہو بلکہ اس کے ظرف میں گھر سے باہر نکل کر مسلمانوں کے پورے جتھوں اور جمگھٹوں کی گنجائش ہو۔ (۹) اسی طرح اوقات نماز کی تعیین کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’نماز وقت کی عبادت ہے جس کے لئے زمانہ بھی متعین ہے اور مکان بھی یعنی مسجد جب ایک شخص کے مہم اوقات جو درحقیقت رات دن میں صرف اوقات نماز ہی ہیں جیسا کہ واضح ہو چکا ہے، نماز میں مصروف ہوگئے تو علاوہ اس کے کہ اسے پابندی اوقات کی عادت پڑے گی قدرتی طورپر نمازوں کے درمیانی اوقات کے کام بھی خود بخود متعین اور منضبط ہوجائیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ یہ درمیانی کام نیکیوں ہی کے متعین ہوں گے، بدیوں کے نہیں کیوں کہ دو نمازیں نمازی کے قلب کو اس درمیانی فاصلہ کے لئے اتنا منور اور متاثر کردیتی ہیں کہ ا س کی اندرونی رہنمائی عموماً نیک ہی کام کر سکتی ہے، اس سے واضح ہوا کہ توقیت نماز سے عین نمازوں ہی کے اوقات نہیں بلکہ نمازوں کے درمیانی اوقات میں بھی انضباط پیدا ہوجانا ضروری ہے۔ (۱۰) حضرت حکیم الاسلامؒنے ایک جگہ معجزہ پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے اس سے متعلق اعتراضات کا آج کی نوبہ نو ایجادات اور اکتشافات کی روشنی میں کافی و شافی جواب دیا ہے، اس ضمن میں منکرین معراج کو لاجواب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’آج کم سے کم معراج سے انکار کرنے کا کوئی حق باقی نہیں رہا، کیوں کہ چاند میں جانے کا جب ارادہ کر لیا تو پہنچنا نہ پہنچنا تو بعد کی بات ہے صرف ارادہ کرنے ہی سے امکان تو ثابت ہوگیا، وقوع جب بھی ہو وہ ہوتا رہے گا تو کل تک جو لوگ معراج کے سفر کو ناممکن کہتے تھے کم سے کم ان کے منہ پر مہر لگ گئی اور وہ اب نہیں بول سکتے۔ اس واسطے کہ وہ امکان کے قائل ہوگئے کیوں کہ سب سے بڑی چیز تو امکان ہی ہے واقعہ ہونا تو امکان کے آثار میں ہے وہ جب بھی ہوجائے۔(۱۱)