حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
خاص اپنے والد محترم حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ سے بھرپور استفادہ کیا، حضرت حکیم الاسلامؒنے خود ایک جگہ اس کی وضاحت فرمائی ہے: ’’راقم الحروف کو جو تھوڑی بہت مناسبت حکمت قاسمیہ سے پیدا ہوئی وہ انہیں کے درس کا طفیل ہے جب کہ مشکوٰۃ شریف و مسلم شریف احقر نے انہی سے پڑھی ہیں اور ان میں حضرت مرحوم آیات و حدیث کے مضامین کے اثبات میں اسی حکمت کے اجزاء سے کام لیتے تھے جس کا اثر شرح صدر کی صورت سے سینوں پر پڑتا ہے۔(۷) حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو اسرار و شریعت کے موضوع سے فطری مناسبت تھی اس لئے انہوں نے اس فن میں مزید استحکام کے لئے حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ سے بطور خاص حجۃ اللہ البالغہ پڑھی اور ان سے حکمت ولی اللہی اور حکمت قاسمی کے رموز و نکات کو بہت ہی اہتمام سے سمجھا۔ حضرت حکیم الاسلامؒرقم طراز ہیں : ’’مولانا ممدوح نے احقر کی اس عرض داشت پر دارالعلوم میں اس ناکارہ کو حجۃ اللہ البالغہ پڑھانی شروع کی اور مختلف اوقات میں احقر کے سوالات پر حکمت قاسمی اور حکمت ولی اللہی کے اصول و حقائق تشریح کے ساتھ نقل فرماتے۔ (۸) مذکورہ تفصیل سے اس ماحول پر بخوبی روشنی پڑتی ہے جس میں حضرت حکیم الاسلامؒکی علمی نشوو نما ہوئی اور اس کے زیر اثر آپ کے اندر ایسا ذوق پیدا ہوا کہ اسرار شریعت سے واقفیت کی راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں اور رفتہ رفتہ یہی چیز آپ کی طبیعت ثانیہ بن گئی۔ جس کے اثرات آپ کی تصانیف و مقالات اور خطبات و مجالس میں پورے طور پر نمایاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جس موضوع پر بھی زبان کھولی یا قلم اٹھایا، اس کے تمام گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالی اور اس کے اسرار و حکم کو اس موثر اور دلچسپ انداز سے بیان فرمایا کہ بالغ نظر قارئین و سامعین اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی کتابوں سے چند اقتباسات ہدیہ ناظرین ہیں جن سے مذکورہ بالا باتوں کا ثبوت فراہم ہوتا ہے،مثلاً نماز کے اسرار و حکم واضح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’سب سے پہلے نماز نے جو اسوہ پیش کیا ہے وہ ہے کہ فرض نماز گھر میں ادا نہ کی جائیں بلکہ مساجد میں حاضر ہو کر یعنی ادائیگی نماز کے لئے سب سے پہلی چیز گھروں کی چہار دیواری سے باہر ہوجانا ہے، گویا نماز نے سب سے پہلے خانگی خلوت توڑ کر ایک انسان کو میدان میں نکالا اور جلوتوں کے ہجوموں میں دیکھنا