حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’حکمت قاسمیہ کے تمام اجزاء نے (جو حضرت والا کی تصانیف میں موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں ) جہاں اسلامی حقائق پر گہری ملّیاتی اور خالص عقلی دلائل کی روشنی ڈالی وہیں پورے زور اور قوت کے ساتھ ان حقائق کو آج کے محسوسات اور دور حاضر کے حسی شواہد و نظائر سے بھی مدلل کرکے اس طرح پیش کیا کہ اسلام کے غیبی امور، شریعت کے بنیادی مقاصد اور دین فطرت کے مبانی و اصول اس حسیاتی رنگ استدلال سے بالکل طبعی اور محسوس و مشاہد نظر آنگے لگے۔ (۴) حضرت حکیم الاسلامؒنے ایک دوسری جگہ اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے : ’’اس ولی اللّٰہی خاندان کی پانچویں علمی پشت میں ایک فرد اٹھا جس نے اس مذکورہ نہج پر دین و مذہب، دینی عقائد اور دینی اصول و کلیات کو اسی الہام ربانی کی تحریک سے ابتداء ً ہی قرآن و حدیث یا مذہب و ملت کا نام لئے بغیر حقائق قرآن و حدیث کو ایسے استدلالی اور منطقی طرز بیان سے زمانہ کے سامنے پیش کیا، جیسے وہ اس زمانہ کے حسب حال ایک مضبوط اور مستحکم ازم پیش کر رہا ہے۔ جس کا ظاہری عنوان ابتداء ًنہ اعلانِ مذہب سے نہ اطلاع غیب مگر انتہاء ً وہی مذہب اور عقیدۂ غیب ہے، مگر اس ڈھنگ سے کہ جیسے وہ خالص ایک فلسفیانہ ازم کی تلقین ہے کہ اس کے مانے بغیر نہ اس دور کی معاشرت صحیح اسلوب سے چل سکتی ہے نہ سیاست و مدنیت اور نہ ہی مابعد الموت کی زندگی استوار اور کامیاب ہو سکتی ہے، اس لئے اس نے ایک حسیاتی فلسفہ و حکمت کی بنیاد ڈالی ہم اسی شخصیت کو حضرت قاسم العلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحبؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔(۵) حضرت نانوتویؒ کے بعد آپ کے تلامذہ نے اس حکمت قاسمی کو فروغ بخشا بالخصوص شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ نے حضرت نانوتویؒ کی مشکل ترین کتابوں کو خود انہی سے سبقاً سبقاً پڑھ کر خوب سمجھا اور ان علوم و معارف کو اپنے تلامذہ تک منتقل کیا، پھر آپ کے مخصوص تلامذہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا محمد احمدصاحبؒ اور حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اس حکمت قاسمی کو تحریر و تقریر، درس و تصنیف کے ذریعہ عام کیا، حضرت مولانا سندھیؒ نے تو حکمت ولی اللہی اور حکمت قاسمی کو اپنا موضع زندگی ٹھہرا لیا تھا، ان کا نظریہ یہ تھا کہ شاہ ولی اللہؒ کی کتابوں کا کما حقہٗ فہم و شعور تصانیف قاسمیہ کے مطالعہ کے بغیر میسر ہی نہیں آسکتا۔ (۶) حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو علم و معرفت اور حکمت قاسمی کے انہیں سرچشموں سے فیضیاب ہونے کا سنہرا موقع ملا، جن سے انہوں نے خوب خوب اپنی علمی پیاس بجھائی اور شریعت کے اسرار و رموز سیکھے، بطور