حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
لوگوں کے سامنے شریعت مطہرہ کے اسرار و حکم واضح ہوجائیں اور ایسے قواعد مرتب کئے جائیں جس سے اس طرح کے ذہن و مزاج کا بروقت علاج ممکن ہو سکے اور تعقل پسند طبیعتوں کو مطمئن کیا جاسکے، چنانچہ حضرت شاہ صاحبؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں : لاسبیل ای دفع ھذہ المفسدۃ ای بأن تبین المصالح و تؤسس لھا القواعد کما فعل نحو من ذلک فی مخاصمات الیھودوالنصاریٰ والدھریۃ و أمثالھم (۲) اس مفسدہ کے دفعیہ کی بس ایک صورت ہے کہ مصالح شریعت بتائی جائیں اور ان کے لئے قواعد وضع کئے جائیں جیسا کہ یہود و نصاریٰ اور دہریہ وغیرہ کے مقابلہ میں ایسا کیا جاتا ہے۔ حکیم الاسلام مولانا محمدطیب صاحبؒ کے الفاظ میں اس امر کی تفصیل کچھ اس طرح ہے لکھتے ہیں : ’’حضرت شاہ صاحبؒ نے بالہام خداوندی بھانپ لیا تھا کہ اب دین کو محض نقل و روایت سے عقیدت مندانہ سمجھنے کازمانہ نہیں رہا، عقلی مطالبوں اور حجت طلبیوں کا دور شروع ہو گیا ہے، حقیقت شناسی، حق طلبی اور اعتقادی روایات پر ایمانی پختگی سست پڑگئی ہے اور عقل پرستی غالب آتی جا رہی ہے، تاآں کہ لوگ مغیبات کو عقل کی ترازو میں تولنے کی فکر میں لگ گئے ہیں ، اس لئے جب تک منقول دین کو معقول لباس پہنا کر پیش نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک اس دور کی عقل پرست طبیعتیں مطمئن نہ ہوں گی اور اسے اِنْ ھٰذَا اِلاَّ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنْ کہہ کرناقابل التفات ٹھہرا دیں گے اور دین سے محروم ہوجائیں گی، اس لئے شاہ صاحب نے بالہام خداوندی اس جامع منقول و معقول مکتب فکر کے ذریعے دین پہنچانے کا فیصلہ فرمایا تاکہ پورا دین جیسے نقل و روایت کے لحاظ سے کامل ہے اسی طرح عقل و روایت کی رو سے بھی کامل ہی نمایاں ہو اور کسی بھی عقل پرست یا درایت درست انسان کے لئے ناقابل التفات نہ ہونے پائے اس لئے یہ نادر روزگار کتاب حجۃ اللہ البالغہ خاص اس موضوع پر تصنیف فرمائی۔‘‘(۳) اس کے بعد جب حضرت مولانامحمد قاسم صاحب نانوتویؒ کازمانہ آیا تو اس وقت معیار غور و فکر میں تبدیلی آچکی تھی اور تعقل پسند طبیعتیں مسائل کے سمجھنے میں صرف عقلی دلائل پر اکتفا نہ کریں بلکہ مشاہدات و حسیات کی روشنی میں کسی بھی مسئلے کے سمجھنے کا مزاج پیدا ہو چلا تھا، اس صورت حال کے پیش نظر حضرت نانوتویؒ نے اسلامی افکار و نظریات کو پیش کرنے کے لئے عقلی دلائل کے ساتھ مشاہداتی اسلوب اختیار کیا، جس سے عقل و خرد کے پرستاروں کو خاموش کرنے، مطمئن کرنے اور حقیقت مسئلہ سے روشناس کرانے میں بھرپور مدد ملی۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمدطیب صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں :