حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
چنانچہ حدیث پاک سے مصر کی اس خاص مرکزیت پر روشنی پڑتی ہے کہ وہ رُباط اسلام اور سرحدوں کا محافظ ہے۔ عَنْ عُمر بن الخطابؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یقولُ اِذَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلیکم مِصْرًا فَاتَّخِذُوْا فِیْھَا جُنْدًا کَثِیْرًا فذالک الْجُنْدُ خَیْرَ اَجْنَاد الْاَرْضِ فقَالَ لَہٗ اَبُوْبَکرؓ وَلِمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لِاَنَّھُمْ وَ اَزْوَاجَھُمْ فِیْ رِبَاطٍ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ (۷) عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہB سے سنا فرماتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ تم پر مصر کو فتح فرمائے تو اس میں بھاری لشکر رکھنا۔ یہ لشکر روئے زمین کے تمام لشکروں سے زیادہ باخبر اور بہتر ہوگا۔ ابو بکرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا اس لئے کہ مصر والے اور ان کی عورتیں قیامت تک سرحدِ اسلام پر رہیں گی، اس لئے ہر وقت انہیں دشمنانِ اسلام کا سامنا رہنے کی وجہ سے سرحد کی حفاظت میں سرگرم و مستعد رہنا پڑے گا۔ حدیث نبوی میں مسلمانوں بلکہ عربوں کو زور دے کر توجہ دلائی گئی کہ وہ کسی وقت بھی مصر کو اپنی غیر معمولی عسکری قوت سے خالی نہ چھوڑیں بلکہ فوجی حیثیت سے اس ملک کو خوب مضبوط رکھیں ، ورنہ پورا عالم اسلام خطرہ میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ مصر یورپ کے لئے ایشیا کا دہانہ اور ایشیا کے لئے یورپ کا دروازہ ہے اور جب اس دروازہ پر مضبوط عسکری قوت نہ ہوگی تو پورا عالم عرب خطرہ میں پڑ جائے گا۔ چنانچہ جب سے مصر اسلامی شوکت سے الگ ہوا، اغیار مطمئن ہوگئے اور اب پورا ایشیاء اُن کا ہے۔ یہ صورت آج مشاہد اور سب کے سامنے ہے۔ یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ ہم نے ان مقامات مقدسہ کو منشاء نبوت کے مطابق نہ سمجھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے دینی مرکز سے رشتہ استوار رکھا۔ جب تک ہمارے پیش نظر یہ حقیقتیں رہیں کہ حجازمَعْقَل الدّین، دین کا ٹھکانہ ہے اور شام عُقْرُ دارالاسلام، دارالاسلام کی عمدہ جگہ (اور جنگی مراکز) ہے اور مصر رِباط الاسلام، اسلامی سرحد ہے اور انہی وجوہات کی بنیاد پر حجاز قبلۂ امن کا محل ہونے کی وجہ سے مرکز دین و عبادت بنا۔ شام دار جنگ ہونے کی وجہ سے مرکز حفظ و عسکریت قرار پایا۔ مقامات مقدسہ کی شرعی حیثیت، اہمیت اور فضیلت کا اظہار زبان فیض سے جس طرح ہوا صحابہؓ نے اس کی روح اور منشاء کو سمجھ کر اس پر عمل فرمایا اور جب تک اس رہنما خطوط پر عمل ہوتا رہا اسلامی شوکت اور قوت و سطوط سب کچھ ہمارے پاس رہی۔ ع گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی تو اس کی بدولت آج صرف عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن چکی ہے۔