حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اَئِسَ اَنْ یَّعْبُدَہُ الُمُصَلُّوْنَ فِیْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَب وَلٰکن فِی التَّحریش بَیْنَھُمْ الخ (۴) بلا شبہ اب شیطان اس سے مایوس ہوچکا کہ جزیرۃ العرب میں مسلمان اس کی پوجا کریں اور بت پرستی کی نجاست سے آلودہ ہوں اِلاَّ یہ کہ کبھی کبھار آپس میں کچھ باہمی چھیڑ چھاڑ ہوجائے۔ اس لئے حجاز کو پہلے شرک و مشرکین سے پاک کیا گیا۔ پھر اس کے بعد یہود و نصاریٰ جو ہمہ گیر بدامنی اور شرانگیزی کی علامت تھے، ان کے فتنے سے تحفظ کے لئے حدیث عمرؓ میں لسان نبوت سے یہ واضح اعلان موجود ہے لَاُخْرَجَنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَاریٰ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ حَتّٰی لاَ اُدعَ فِیھا اِلاَّ فیھا مسلمًا وفی روایۃٍ ’’لَئِنْ عِشْتُ اِنْشَائَ اللّٰہ لَاَخْرِجَنَّ الخ ضرور نکالے جائیں گے یہود و نصاریٰ جزیرۂ عرب سے تا آں کہ یہاں مسلمانوں کے سوا کوئی دوسری قوم باقی نہ رہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں اگر زندہ رہا تو جزیرۂ عرب سے انشاء اللہ اُن کو ضرور نکال کر رہوں گا۔‘‘ یہ فرمان اس لئے جاری کرایا گیا تاکہ تعصباتی لڑائیوں سے اس مرکز امن کا امن خطرہ میں نہ پڑے۔ اس کے علاوہ بھی غیبی طاقتوں سے جس کو حزب اللہ بھی کہہ سکتے ہیں حرم کی حفاظت کے انتظام فرمائے گئے۔ مرکز امن و عبادت کی حفاظت کے ظاہری انتظام کے بعد اسلام کے اجتماعی نظام اور ہمہ گیر دین کی حفاظت کے لئے ضروری تھا کہ ہمہ گیر نظامِ سیاست بھی قائم ہو تاکہ مادی قوت و طاقت، جنگ و جہاداور سطوت و شوکتِ دین کی رعب انگیزی ہو۔ اس محکم عمل کا مرکز شام کو بنایا گیا۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے شام کو خطاب کرکے فرمایا یاشام انت سَیْف نقمَتِی وَ سَوْطَ عَذَابِیْ اَنْت الاَنَْدَرَ وَاِلَیْکَ الْمَحْشَرَ (۵) اے شام تو میرے غصہ کی تلوار ہے، تو میرے عذاب کا کوڑا ہے، تو ہی سب سے بڑا دفاعی محاذ ہے اور تیری ہی طرف محشر اور اجتماعی کُل ہوگا۔ نبی کریم Bنے فرمایا اَھْلُ الشامِ سَوْط اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ ینتقِمُ بِہٖ مِمَّنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ حَرَام عَلیٰ مُنَافِقِیْھِمْ اَنْ یَّظھَرُوْا عَلٰی مومنیھِمْ الخ (۶) اہل شام اللہ کا کوڑا ہیں ، جن کے ذریعہ اللہ جس سے چاہے انتقام لے گا اور شام کے منافقوں پر حرام ہے کہ وہ اس کے مخلصین پر غالب آئیں ۔ اس کے علاوہ شام اور اہل شام کے بارے میں بہت سی روایتیں مقامات مقدسہ میں مذکور ہیں ، من شاء فلیطالع، اس کے علاوہ مرکز امن و سلامتی مکہ اور مرکز قوت و سیاست مرکز شام، ان ونوں مرکزوں کی حفاظت کے لئے ناگزیر تھا کہ عالمی دفاعی نظام بھی قائم اور مستحکم ہو۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے مصر کو اسلامی عسکریت کی چھائونی اور لشکر گاہ بنایا گیا تاکہ وہ اسلامی سرحدوں کے لئے محافظ بھی ہو اور رباط اسلام بھی۔