حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ایک ایک قول اور ایک ایک نیت اور ایک ایک ظاہری ہیئت تک وسیع کرکے توحید عملی کا ایک مستقل نظام قائم کیا ہے تاکہ زندگی کے ہر موڑ پر اور اس کی ایک ایک نقل و حرکت پر بندہ اپنے خدائے واحد کی طرف رجوع رکھے اور شرک کی آلائشوں سے ملوث نہ ہو۔ بہرحال عرض یہ کرنا ہے کہ جیسے کائنات خلق اس کے فطری نظام میں دخل اندازی انسانیت کی تباہی ہے اور جس طرح کائنات خلق اور اس کی اشیاء میں ترمیم و تنسیخ کا تصور، یا عمل شرک اور خلافِ توحید ہے، اسی طرح اس کائنات روحانی اور اس کے کسی جزوی مسئلہ میں بھی انسانی ترمیم و تبدیلی ایک کھلا شرک ہے، جسے مٹانے کے لئے انبیاء معصومین مبعوث ہوئے۔ اس لئے جیسے کائنات خلق سے ہم فائدہ ہی اٹھا سکتے ہیں ، اسے بدل نہیں سکتے۔ اسی طرح کائنات امر یعنی شرائع سے بھی، فائدہ ہی اٹھا سکتے ہیں اور اٹھانا چاہئے، اسے بدل نہیں سکتے۔ اگر کسی ایک جزئی میں تغیر و تبدل کا تصور باندھا جائے گا، تو یہ جزوی ترمیم نہ ہوگی، جس کا ایک چھوٹا سا جزو یہ جزئی ہے، بلکہ شریعت کے نظام عمومی کا رشتہ، جبکہ ساری انواع و جزئیات میں پرویا ہوا ہے تو جس دانہ کو بھی اپنی جگہ سے نکال دیا جائے گا، تو صرف وہ جزئی خرابی نہ ہوگی، بلکہ پوری مالا اور ہار کی بدزیبی اور بدنمائی ہوگی، جس سے ہار کی اصلی حسین شکل و صورت باقی نہیں رہ سکتی اور اسی درجہ میں روحانیت کی تباہی سامنے آجائے گی، جس کی صلاح و فلاح کے لئے یہ دین اتارا گیا ہے بلکہ تغیر و تبدل کر ڈالنے کے ناپاک عمل کے مرادف ہوگا، جو ناممکن ہونے کے علاوہ انتہائی خباثت اور خیانت ہوگی کہ آدمی بندگی کی حدود سے نکل کر خدائی حدود میں مداخلت کرنے کی شرارت کا مرتکب ہو، جبکہ پورے نظام دین و دیانت کا خاکہ، بحیثیت مجموعی ایک متصل واحد شئے ہے، اس کے کسی جزو کو چھیڑنا پورے نظا کو چھیڑنا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک حوض کے متصل واحد پانی کی سطح پر اگر ایک سمت میں بھی، ایک ڈھیلا پھینک کر اسے ہلا دیا جائے تو ناممکن ہے کہ یہ ایک سمت کی حرکت لہر بن کر درجہ بدرجہ دوسری طرف نہ پہنچے، اسی طرح یہ تمام اسلامی شعبے اپنے اپنے اصول و کلیات کے تحت اور پھر یہ تمام اصول کلیات اپنے باہمی ربط سے جڑ کر، ایک ہی کلی الکلیات کے تحت، باہم ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے اور گتھے ہوئے اور متصل واحد ہیں کہ دین کے کسی ایک چھوٹے سے گوشے کے حقیر سے حقیر تغیر کا اثر بھی پورے نظام کے ڈھانچہ پر پڑے بغیر نہیں رہ سکتا۔(۲) اس خطاب میں حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ نے ملّی اتحاد کی اہمیت کلمۂ طیبہ کی روشنی میں واضح کرتے ہوئے دین اسلام کی حقانیت پر بحث کی، نیز اسے دین فطرت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مذہب