حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نہایت ہی وسیع حاوی اور محیط کائنات جنس کے نیچے آجاتی ہیں ، جس کا نام وجو دہے کہ ان کائناتوں میں اس سے بڑا احاطہ کسی کلی کا نہیں ، جو ساری موجودات کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے اور ظاہر ہے کہ وجودِ عین ذات حق سے (جل ذکرہ) اس کی ذات اور وجود الگ الگ نہیں ہیں ، کہ وہ اس کا جدا ہوجانا ممکن ہو، اس لئے یہ ساری کائناتیں وجود کے واسطہ سے اس وجودِ مطلق اور موجودِ اصلی سے وابستہ ہوجاتی ہیں ، جس سے ان سب کا ایک ہی سرچشمہ ثابت ہوتا ہے اور اسی پر ان کائناتوں کے وجود کی انتہا ہوجاتی ہے جسے قرآنِ کریم نے دو لفظوں میں کھول دیا ہے ’’وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی‘‘ (بلا شبہ تیرا رب ہی منتہیٰ ہے) جس پر ہر موجودگی کی انتہاء ہوئی ہے، کہیں فرمایا ’’اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی‘‘ (بلاشہ تیرے ہی پروردگار کی طرف ہر چیزکا رجوع ہے) کہ وہ اسے چھوڑ کر ادھر ادھر نہیں جاسکتی، لیکن ساتھ ہی ان موجودات پر کائناتوں کی انتہاء نہیں ہوجاتی، بلکہ موجودات سے کہیں زیادہ ان گنت معدومات بھی ہیں ، جنہوں نے ابھی تک وجود کا جامہ نہیں پہنا، مگر ان کا موجود ہونا ممکن نہیں اور وہ کائنات خلق میں شامل ہوسکتی ہیں ۔ اس لئے یہ ساری موجودات و معدومات مل کر ایک اور انتہائی حاوی و شامل اور محیط الکل کلی کے نیچے آئی ہوئی ہیں ، اس جنس کلی کا نام علم خداوندی ہے، جو موجود و معدوم سب پر حاوی ہے، پس موجودات عینی شکلوں میں موجود ہیں اور معدومات علمی صورتوں میں علم الٰہی میں سمائی ہوئی ہیں ۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو ان دو کلموں میں ارشاد فرمایا ہے ’’وَ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاط بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا‘‘ (اور اللہ جل ذکرہ ہر چیز پر خواہ وہ موجود ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو)اپنے علم سے محیط ہے۔ بہرحال اس مرتب نظام کائنات کی کائناتوں سے جس کی انتہاء علم الٰہی پر ہے، ہم فائدہ تو ضرور اٹھا سکتے ہیں اور ضرور اٹھانا چاہئے، جبکہ یہ ہمارے لئے بنائی گئی اور مسخر کی گئی ہیں ، لیکن انہیں بدل ڈالنے کا تصور جنون اور حماقت سے کم نہیں جبکہ فطرت علمی ہو یا عملی نہ بدلنے کی چیز ہے نہ بدلی جاسکی ہے ’’لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ‘‘ (اللہ کی خلقت میں تبدیلی ناممکن ہے، یہی اس کا طریقہ اور مستحکم دین ہے، لیکن انسانوں کی اکثریت جہالت میں پھنسی ہوئی ہے) ٹھیک اسی فطرت پر خدا کا نظام امر بھی ایک عجیب حکیمانہ ترکیب اور تنظیم کے ساتھ قائم ہے، جس میں مسائل جزیہ کے افراد بھی ہیں اور ان پر انواع بھی، پھر انواع کے اوپر اجناس اور اجناس پر جنس الاجناس کا احاطہ بھی، جس سے دینی مسائل کی کثرتیں سمٹ کر وحدتوں کی طرف اور وحدتیں سمٹ کر وحدت الوحدات کی طرف رجوع کئے ہوئے ہیں اور دین مثل حسّی کائنات کے ایک نہایت ہی منظم اور مرتب روحانی کائنات کی شکل میں جلوہ گر ہے۔