حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے پاس ایک نوٹ بک رہتی ہے جس میں وہ اپنی بیویوں کی ولدیت اور گائوں کے نام لکھ لیتے ہیں اور (پھر بھی) انہیں پشیمانی کا سامنا کرناپڑتاہے کہ جسے وہ ایک اجنبی سمجھ کر ملتے ہیں وہ ان کی بیوی یا لڑکا ہوتا ہے۔‘‘ (۱) لیکن اسلام نے سماج کے اس وحشی دستور کے خلاف سو سو بیویاں رکھنے کے قانون کو محدود کرکے اگر چار کی گنجائش دی اور وہ بھی کڑی شرائط کے ساتھ اور اسی بے قید غلاظت سے سماج کو پاک رکھنے کے لئے تو مصلحین کی ٹولیا ں قانون کے پُشتارے لے کر دوڑ پڑیں ، جس سے ملک میں راتوں رات مادر وطن کی بیٹیوں کے بدن سے عصمت و عفت کا لباس رات بھر اتار کر تار تار کیا جاتا رہا ہو اور خدا کے غضب سے حکومت اور سماج بے نیاز ہو، ایسے ملک کے چند ایسے سرپھرے مصلحین کو مسلم پرسنل لاء کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے سو بار خود تو شرمانا چاہئے تھا، جنہیں بے شرم سماج کو ٹوکنے تک کی ہمت نہیں ۔ ان میں اسلام کی فطری اور اعلیٰ و ارفع قانونِ عصمت پر حرف زنی کرنے کی ہمت آخر کہاں سے پیدا ہوئی؟ بے شمار بچوں کی تعداد پر تو پابندیاں عائد کی جائیں مگر بے شمار غلیظ گناہوں پر پابندیاں عائد کرنے کا کوئی جذبہ نہ ابھرے، خواہ وہ کتنی ہی تعداد میں ہوں ، کہیں بھی ہوں اور کتنے ہی شرمناک انداز میں ہوں ۔ برائیوں کے بازار کھلے ہوئے ہیں ، جن میں ہر برائی اور ہر اخلاقی گندگی بِکری کے مآل کی طرح بکتی ہے۔ تباہ حال اچھوتوں کا کیا حال ہے، غریب ہندو عورتوں کا کیا حال اور مآل ہے، جوان نسل کے لڑکے اور لڑکیاں کن کن سماجی مصیبتوں میں مبتلا ہیں ، جھوپڑیوں میں عورتوں کی عزت و عصمت کیسے دردناک حالات سے دوچار ہے، وہاں کوئی مصلح، کوئی لیڈر اس اصلاحی مہم کو لے کر اٹھنے کی تکلیف گوارہ فرما کر نہیں پہنچتا، اگر وہ اس اصلاحی مہم کو لے کر اٹھیں تو میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم سب اسی وقت ان مصلحین کے پروگراموں کا آخر تک ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں ۔ شاید ان ہی غلاظتوں کی پردہ پوشی کے لئے پرسنل لاء کے چند مسائل کو ہدف بنا کر ان میں ترمیمات اور اصلاحات کے نعرے لگائے جارہے ہیں یا ممکن ہے کہ اقلیتوں کو جذباتی ہیجان میں مبتلا رکھنے کی یہ کوئی تدبیر ہو، بہرحال نعرہ زنوں کا انداز قد ہر لباس میں عریاں ہیں ، خواہ وہ آئین کا لباس پہن کر آئیں یا سماج اور معاشرہ کی اصلاح کا، لیکن اگر ان میں سے کوئی فرد، دین خداوندی میں ترمیم و تبدیلی کا نعرہ بزعم خود کوئی اصولی بات سمجھ کر لگا رہا ہے تو اس اجتماع کے موقع پر اپنے تمام علماء کرام اور دانشوران محترم کی طرف سے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اس عقیدے پر اٹل ہیں کہ جس طرح خدائے بزرگ و برتر نے اپنے نظام خلق کو اپنی سچی فطرت پر قائم کیا ہے جس میں تبدیلی ناممکن ہے کہ لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہ اسی طرح ا س نے اپنے نظام امر کو بھی جس کا نام دین ہے، اپنی اسی فطرت کے اساس پر قائم کیا ہے، اس لئے اس میں بھی