حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَا وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ ا سلام کا قالب جن قانونی دستاویزوں اور فطری اصول سے مشیت خداوندی نے تیار کیا ہے ان میں تمام ہنگامی اور دوامی اصلاحات اور ان کے اصول و قوانین جمع کرکے ان میں سے ان تمام سماجی برائیوں کو نکال دیا ہے جن کا نام جاہلیت تھا۔ اس میں کسی تغیر اور تبدیلی کے معنی اسی جاہلیت کو دوبارہ لے آنے کے سوا دوسرے نہیں ہوسکتے، جس سے مالکِ مطلق نے انسانیت کو پاک کرکے درجۂ کمال پر پہنچایا تھا۔ آج پرسنل لاء کے نام پر ان تبدیلیوں کا مواد بنام اصلاح و ترمیم پیش کیا جارہا ہے۔ کیا حقیقتاً یہ اصلاح اور کوئی اصلاحی تحریک ہے؟ یہ اصلاح اسی قسم کی ہے، جسے قرنِ اوّل کے منافقین اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کے نعرے کے ساتھ لے کر کھڑے ہوئے تھے، لیکن عالم الغیب والشہادۃ نے کھلا اعلان فرمادیا تھا اَلاَ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُوْنَ۔ ہم اپنے دین و دانش کے لحاظ سے یہ تسلیم نہیں کرتے کہ مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی تحریک کوئی اصلاحی تحریک ہے بلکہ دوربین سے دیکھئے یا خوردبین سے، صاف نظر آئے گا کہ یہ ایک سیاسی تحریک ہے جو ہندو کوڈبل سے پیدا ہوئی ہے، سو یہ آپ کی سیاست ہے، آپ اسے اپنے پاس رکھئے۔ ہندوستان کا دستور، مذہب اور سیاست کو الگ الگ قرار دیتا ہے تو آپ ہمارے مذہب کے معاملہ میں اپنی سیاست ملا کر حکومت اور عوام کو ناراض کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں ؟ آپ کا دعویٰ ہے کہ حکومت ریفارمس چاہتی ہے اور ہم مصلح ہیں ، میں پوچھتا ہوں کہ ملک میں سماجی برائیوں ، اخلاقی گراوٹوں اور غلاظتوں کے جو ڈھیر لگے ہوئے ہیں حکومت کے قانون، حکام کی طاقت اور نام نہاد مصلحین کی اصلاحی مہم کا رخ اس طرف کیوں نہیں ؟ مجھے اس وقت ایک سخت لفظ کہنے پر معاف کیجئے کہ وہ سماج کتنا دیّوث ہے جو لاکھوں مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو بازارمیں بیٹھنے کی اجازت دیتا ہے اور چار شادیوں کی محض اجازت اور وہ بھی خاص شرائط عدل و دیانت سے مشروط اجازت پر اعتراض کرتا ہے اور اس غلاظت پر ان مظلوم قسمت کی ماری بازاری گناہگار عورتوں پر کتنے مرد ظلم توڑتے ہیں ، نہ کوئی پابندی عائد کرتا ہے اور نہ کوئی دار و گیر کا روادار ہے۔ سماج نے گناہوں کے بازار لگا رکھے ہیں ، آج بھی اس ملک میں ایسے فرقے ہیں جو اسّی اسّی بیویاں رکھتے ہیں اور سماج ان کے بارے میں چوں تک نہیں کرتا۔ بقول بابوا بھے چندر اور بابو گریندر ناتھ دت۔ ’’اس ملک میں ایسے کامن برہمن بھی ہیں جن کی پچاس پچاس اور سو سو بیویاں ہیں ، ان میں سے ہر شخص