حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
کی فلاح و بہبود وابستہ ہے۔ امام مالکؒ کا ارشاد ہے: لا یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا۔ (اس امت کا آخری حصہ بھی اسی سے صلاح و فلاح پاسکتا ہے، جس سے امت کے اول حصہ نے صلاح و فلاح پائی) خلافِ پیمبرؐ کسے رہ گزید کہ ہرگز بہ منزل نخواہد رسید یہی وہ روشنی اور رہنمائی ہے جس نے صدیوں کے خلاء کو پُر کرکے ہمیں ایمانی عزیمت عطاء کی اور ہم لوگوں کو جو ٹکڑے ٹکڑے تھے، آج کے دن ایک جسم واحد کی طرح ایک جگہ جمع کردیا اور ایک بار پھر اپنی شریعت اور اس کے مسائل کی حفاظت کے لئے اس مقام پر کھڑا ہونے کی ہمت بخشی۔بلاشبہ جس طرح آج کا یہ اجتماع عظیم ہے اسی طرح یہ دن بھی ایک عظیم بلکہ عظیم تر دن ہے جس میں بظاہر ایک ناممکن سی بات نہ صرف ممکن بلکہ واقعہ بن کر سامنے آگئی ہے اور وَاعْتَصِمُوْا بِحْبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا کا پاکیزہ منظر آنکھوں سے نظر آرہا ہے۔ حضرات گرامی! ہر دور میں تاریخ کا ظہور کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا ہے لیکن اس دور کا تاریخ ظہور یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے مختلف مکاتب فکر کے علماء و دانشور اور رہنما وحدتِ کلمہ کی بنیاد پر ایک نقطۂ وحدت پر جمع ہیں ، اس کی روشنی میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق توحید و رسالت اور جذبۂ وحدت کی جو امانت امت کو سپرد کی گئی تھی ہم اس کی حفاظت کے فریضہ کو فرض کی طرح ادا کرنے کے لئے بیٹھے ہیں ، بلاشبہ یہ امانت ہمیں جان و مال اور آبرو سے زیادہ عزیز ہے۔ ہم اپنی جانوں سے دستبردار ہوسکتے ہیں مگر اس ازلی اور ابدی امانت سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔ بزرگانِ محترم! آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ اسلام عام مذاہب کی طرح کوئی خاندانی، وطنی یا قومی قسم کی روایات کا مذہب نہیں ہے بلکہ روایت و درایت کے لحاظ سے اس کی ہمہ گیر فطرت کی خود اپنی ہی ایک مستقل اور امتیازی شان ہے۔مذاہب کی دنیا دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اور مذاہب کی مثال ایک ایسی مملکت کی سی ہے جس کی سرحدیں نہیں ، اگر ہیں تو وقت کی دھارے سے ادلتی بدلتی رہیں ، لیکن اسلام ایک ایسی مملکت ہے کہ جس کی سرحدیں اٹل ہیں اور وہ سرحدیں خداوندی دستور سے بنی ہوئی ہیں ، جو قلعہ بند شہر پناہ کی مانند ہیں ۔ زمانہ کی کسی ضرب سے نہ وہ ٹوٹ سکتی ہیں اور نہ ہل سکتی ہیں ، یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان سرحدات سے باہر نکل جائیں مگر یہ ان کی تعدی ہوگی، حدود اپنی ہی جگہ اٹل رہیں گی۔