حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دراحالیکہ اس مؤقر مجمع میں ایسے اکابر علم و فضل موجود ہیں جو بسطۃً فی العلم والجسم دونوں لحاظ سے اس ذمہ دارانہ منصب کے لئے حق اور ملک و قوم پر اثر انداز ہونے کی اعلیٰ صلاحیتیں رکھتے ہیں ۔اس صورت میں مجھ جیسے طالب علم کے لئے اس بڑی ذمہ داری سے بہ ادب معذرت کردینے کا موقع تھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اَقویا کے مقابلہ میں اس درجہ کا کمزور ہونا بھی بہرحال ایک امتیاز ہے اور بڑے کمال کے مقابلہ میں بڑا نقصان بھی کمال ہی سے نسبت رکھتا ہے، جو درحقیقت اس کمال کے نمایاں اور واضح کردینے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ و بضدھا تتبین الاشیاء۔ ضد ہی سے اصل کا تعارف اور تبین ہوتا ہے، اضداد نہ ہوں تو کمالات کی بہت سی قوتیں چھپی کی چھپی رہ جاتی ہیں ، اگر ظلمت نہ ہو تو نور کے پہلو نہیں کھل سکتے، اگر رات نہ ہو تو دن کی قدر و قیمت معلوم نہیں ہوسکتی، اگر جہل نہ ہو تو علم کی عظمت نمایاں نہیں ہوسکتی، اگر ضعف نہ ہو تو قوت کی قدریں نامعلوم رہ جائیں ، اگر ناقصین نہ ہو توں کاملین کے کمالات کے پہلو سامنے نہیں آسکتے۔ اس حقیقت کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ اس ضعیف و ناکارہ کا انتخاب بہت ہی موزوں و مناسب ہو ا اور جیسے انتخاب شدہ کو یہ بلا چون و چرا قبول کرلینا چاہئے تھا اسی طرح انتخاب فرمانے والے بزرگ بھی میرے ہی نہیں بلکہ پورے اجتماع کے شکریہ کے مستحق ہیں کی انہوں نے حقیقت شناسی کا پورا ثبوت دیا ہے لیکن اس شکریہ سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ہم سب کو اس خداوند بزرگ و برترکا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس کی عطا کردہ توفیق سے ہم سب یہاں ایک جگہ جمع ہیں اور کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے ہیں ، نہ صرف ہمارے اجسام ہی ایک دوسرے سے قریب ہوگئے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دل بھی ایک دوسرے سے قریب اور اخوت اسلامیہ کے جذبہ کے تحت قریب سے قریب ترہوجانے کا آرزو مند ہیں ۔ بزرگانِ محترم! ہمیں ملانے والی چیز صرف اللہ کانام اور اس کا مستند کلام ہے اور ہمارے دین کی واحد اساس کلمہ طیبہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ ہی ہمیشہ کی طرح آج بھی ہمارے اس ملّی اتحاد کا سرچشمہ ہے۔ ہم اللہ کے نام سے زندگی حاصل کرتے ہیں اور اسی کلام کو اپنی زندگی کا قانون سمجھتے ہیں اور اللہ کے سچے رسول خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ B کی ذاتِ قدسی صفات کو کمالاتِ خداوندی کا نمونہ اور اپنی دنیا و آخرت کا کامل و مکمل رہنما اور مربی یقین کرتے ہوئے ان ہی کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا آخری مقصد سمجھے ہیں ۔ اسی پاک اسوہ سے ہماری زندگی بنی ہے اور اسی سے آئندہ بنے گی اور اسی پر خاتمہ سے ہماری آخرت