حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اجلاس کاایک ہی عنوان تھا ’’لاتبدیل لکلمات اللّٰہ ‘‘ (اللہ کے فرمان میں کوئی تبدیلی نہیں ) اس اجلاس کے صدر حکیم الاسلامؒ حضرت مولانا محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطبہ ٔ صدارت میں سب سے پہلے حاضرین اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا تھا، پھر بڑی تفصیل کے ساتھ واضح فرمایا کہ اسلامی شریعت کوئی انسان کا وضع کردہ نظام نہیں ہے، جس میں تبدیلی کی گنجائش ہو، یہ خدا کا قانون ہے، قانون فطرت ہے اور فطرت تبدیل نہیں ہوسکتی، اگر کوئی زمین، آسمان، چاند، سورج اور کواکب و نجوم کو نہیں بدل سکتا، صرف اس سے فائدہ ہی اٹھاسکتا ہے تو دین کے کلیات و جزئیات ، احکام وآداب، اخلاق و عقائد، معاملات و معاشرت اور اجتماعی قوانین سے لے کر عائلی قوانین تک کی فطری حدود کو بھی نہیں بدل سکتا۔ پھر مختصر طور پر عائلی قوانین اور مسلم پرسنل لا کی تبدیلیوں اور امت کے علماء ربانی و مشائخ حقانی کے دفاع کا سرسری تذکرہ کرتے ہوئے اس وقت سرکاری کارروائیوں اور اعلانا ت کا ذکر کیا اور مسلمانوں کی آواز کے بارے میں فرمایا تھا : ’’پرسنل لا کے بارے میں سرکاری طور پر گویہ بھی اعلان ہے کہ اسمیں مسلمانوں کی مرضی کے بغیر کوئی بھی ترمیم و تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن ساتھ ہی بالواسطہ قانون سازی کے ذریعہ تبنیت اور سرکاری ملازمین کے لیے نکاح ثانی کے حق پر پابندی نے جو پرسنل لا میں عمل ترمیم کا آغاز ہے پرسنل لا کے بارے میں مسلمانوں کی تشویش کو حق بجانب بنادیاہے۔ اس لئے وہ متفقہ آواز اٹھانے پر مجبور ہوئے اور جس کی گونج ان شاء اللہ رائیگاں نہیں جائے گی۔‘‘ اسی کنونشن میں ایک متحدہ پلیٹ فارم کی تشکیل پر تمام افراد متفق ہوئے اور طے پایا کہ اگلے ہی سال حیدرآباد میں ایک اجلاس عام منعقد کرکے ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کا آغاز ہوجائے، چنانچہ ۱۹۷۳ء میں حیدرآباد میں اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اجلاس منعقد ہوا اور باتفاق آراء حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب رحمۃ اللہ کو بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا۔ خاندان نانوتویؒ کے روشن چراغ اور اکابر دیوبند کے علمی جانشین حکیم الاسلامؒ حضرت مولانا محمد طیب ؒ کے اندر مسلمانوں کے مختلف طبقوں ، مکاتب فکر اور مسلک و مشرب کے لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کی بے پناہ صلاحیت تھی اور عالمی دینی تعلیمی مرکز دارالعلوم دیوبند کے انتظام و انصرام کا پچاس سالہ تجربہ تھا، دارالعلوم دیوبند کے تعارف اور دعوت کے مقصد سے دنیا کے تمام براعظموں کا سفر ہوچکا تھا، پوری دنیا میں ان کے مواعظ و خطبات کا شہرہ تھا، اور ہندوستان کے تمام علاقوں میں اور ہر مسلک و فرقے میں انھیں مقبولیت