حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
قائدین نے اس پر سخت اعتراضات کئے اور اس میں ترمیمات پیش کیں ، مگر ڈاکٹر امبیڈکر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی حکومت یہ پسند کرے گی کہ ملک کی ایک بڑی آبادی مسلمان اسکے خلاف ہوجائے، او رکوئی پاگل حکومت ہوگی جو ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں کریگی۔ اس رہنما اصول کے علاوہ بھی کچھ رہنما اصول شاملِ دستور کئے گئے جو ملکی مفادات میں تھے، مگر ان اصولوں پر توجہ دینے کی حکومت کی جانب سے کوئی کوشش ہی نہیں ہوئی، البتہ چند سال گذرنے کے بعد ہی حکومت کی بعض ایجنسیوں کی جانب سے یکساں سول کوڈ لاگو کئے جانے کی آوازیں اٹھنے لگیں ۔ ۱۹۵۶ء میں جب ہندو پرسنل لاء میں تبدیلی کی گئی تو اس وقت کے وزیر قانون مسٹر پاٹیکر نے اس بات کا اشارہ دیا کہ یہ ترمیم یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی پہلی کڑی ہے، بتدریج اسکو پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔ اس سے علماء دین و دانشوران ملت چونک اٹھے، پھر جب حکومت کو محسوس ہوا کہ مسلمانان ہند قانون شریعت میں کسی بھی تبدیلی کو ہرگز قبول نہیں کریں گے تو حکمت عملی بدل دی گئی، اور اعلان کردیا گیا کہ جب تک مسلمان خود مطالبہ نہ کریں ان کے پرسنل لا (عائلی شرعی قوانین) میں تبدیلی نہیں کی جائے گی، مگر کچھ فرقہ پرست جماعتوں اور حکومت میں شامل عناصر کی جانب سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی آوازیں گاہے بگاہے سنائی دیتی رہیں ،پھر درپردہ کچھ ایسے افراد کے ذریعہ سے اس طرح کی باتیں کہی جانے لگیں ، یا کہلائی جانے لگیں جونام کے مسلمان تو تھے مگر ایمان و عمل اور شریعت کی ضرورت و اہمیت سے بے گانے تھے، گویا حکومت کیلئے مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے راستے ہموار کئے جانے لگے، اس کا اظہار ۱۹۷۲ء میں ’’متبنّٰی بل‘‘ کی صورت میں ہوا، جو تمام شہریوں (بشمول مسلمان) کیلئے قابل نفاذ ہوتا، اس وقت کے وزیر قانون نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یہ مسودہ قانون یکساں سول کوڈ کی طرف پہلا مضبوط قدم ہے۔ اس بل کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے متوقع درپیش خطرات کے بادل منڈلانے لگے، علماء دین، قائدین اور دانشوران قوم کے سامنے تحفظ شریعت کے حوالے سے سوالیہ نشانوں کی ایک لمبی لائن کھڑی ہوگئی۔ دارالعلوم دیوبند صرف ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں ، بلکہ ایک علمی اور دینی تحریک کا عنوان ہے، ۱۸۶۶ء میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء علماء دین کے ذریعہ بغاوت ۱۸۵۷ء کے بعد کے پر آشوب دورمیں ایک علمی اور دینی تحریک کا آغاز ہوا، جسکے مقاصد میں جہاں دینی علوم کی حفاظت و اشاعت تھی ، وہیں تحفظ شریعت اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بقاء کیلئے جدوجہد کرنا بھی تھا، ہندوستان کی آزادی کے وقت برصغیر ہند کے علاوہ بیرونی دیار میں بھی ایک دینی و اسلامی مرکز کی حیثیت سے معروف و