حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نمایاں حصہ لیا تھا اور شاملی کے جہاد میں بہ نفس نفیس شریک تھے اس کے علاوہ ہند و پنڈتوں اور عیسائیوں پادریوں سے ان کے مناظرے بھی بڑے مشہور ہیں ، لیکن ان کی خدمات کا شاہکار دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم دینی ادارے کی تاسیس ہے۔ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ ان کے حقیقی پوتے تھے، ان کے والد بھی بلند پایہ عالم دین اور سلطنت آصفیہ حیدرآباد کے مفتی رہ چکے ہیں ، ان کی وفات ۱۳۴۲ھ میں ہوئی اور حیدر آباد کے خطۂ صالحین میں ہی وہ دفن بھی ہوئے۔ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ کے اساتذہ میں ریشمی رومال تحریک کے قائد اور جامعہ ملیہ دہلی کے بانی شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، نامور محدث علامہ انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام پاکستان علامہ شبیر ا حمد عثمانی ؒ اور ہندوستان کے عظیم مفتی مولانا عزیز الرحمان عثمانی ؒکا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے اس کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بھی ان کو خصوصی فیض حاصل تھا۔ اور سیاسی خیالات میں بھی ان کے ہی ہم مسلک تھے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو خدا نے بڑے فضل و کمال سے نوازا تھا، ذہانت و ذکاوت میں تو بچپن ہی سے طاق تھے، لیکن جس وصف میں اپنے ہم عصر علماء پر ان کو امتیاز حاصل تھا وہ دین کے اصول پر ان کی نظر اور شریعت کے اسرار و حکم کے بیان میں غیر معمولی بصیرت ہے، انہیں لوگوں نے حکیم الاسلام کے لقب سے تاعمر یاد کیا اور یہ حقیقت واقعہ ہے کہ حکمت آفرینی میں ان کا ذہن اپنے دادا حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ متوفی ۱۲۹۷ھ اور شاہ ولی اللہ دہلوی متوفی ۱۱۷۶ھ کے مشابہ تھا ان کی ذہنی ساخت ہی گویا حکیمانہ تھی کسی بات کو شرعی دلائل سے ثابت کرنے میں ان کو بڑا ملکہ حاصل تھا، ان کی تقریر و تحریر دونوں میں یہ رنگ نمایاں نظر آتا ہے‘‘۔ ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے موضوع پر جو تقریر انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے یونین ہال میں کی تھی ’’فکرِ اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ پر جو مقالہ انھوں نے جامعہ ملیہ دہلی کے سمینار کے لئے لکھا تھا اسی طرح قرآن و سنت کے باہمی تعلق پر جو کتاب انھوں نے لکھی تھی یا جو مقالہ قطر کی سیرت و سنت کانفرنس کے لئے قلمبند کیا تھا وہ ان کی مجتہدانہ بصیرت اور قرآن و سنت اور فقہی اصولوں پر غیر معمولی دسترس کا آئینہ دار ہے۔ برصغیر کے مسلمان عام طور پر ان کو ایک بلند پایہ عالم دین اور خوش بیان مقرر کی حیثیت سے جانتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ طویل اور مربوط عالمانہ تقریر جس سے عوام و خواص یکساں طور پر مستفید ہوسکیں ان کا بڑا کمال تھا اور اس میدان میں ان کا کوئی ہمسر نہیں نظر آتا۔ برصغیر کا چپہ چپہ پون صدی تک ان کی آواز سے گونجتا رہا، کسی اجتماع میں ان کا نام ہی اس کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا، ہند و پاک کے علاوہ