حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
خیزد بردل ریزد‘‘ والی کیفیت متکلم کے کلام میں پیدا ہوتی ہے دراصل لفظوں کا موزوں اور برمحل استعمال اور ان کی معنوی تہہ داری ہے جو صرف سامع نوازہی نہیں بلکہ دل نواز بھی ہوتی ہے،جس میں صرف ’’فردوس گوش‘‘ ہونے کا ہی سامان نہیں ہوتا بلکہ قلب کو مہمیز کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ غالب کے اس مشہور شعر میں اسی کیفیت کے اظہار کی نقشہ کشی یوں کی گئی ہے کہ ؎ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے تاہم اگر لفظوں کے دروبست، جملوں کی ساخت ،ترکیبات وتشبیہات کو ادب کی تعریف کے حوالے سے ذہن میں رکھیں تو اس کی مثالیں بھی حضرت حکیم الاسلامؒ کے یہاں کم نہیں ہیں ۔ چندمثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔ ’’صنائع حرف کے سلسلے میں لوہے لکڑی کے خوش نما اور عجیب وغریب سامان تعمیرات کے نئے نئے ڈیزائن اور نمونے، سیمنٹ اور اس کے ڈھلائو کی نئی نئی ترکیبیں اور انجینئروں کی نئی سے نئی اختراعات جب سامنے آئی ہیں تو سائنس کا نظر فریب چہرہ بھی سامنے کردیا جاتاہے کہ یہ سب اسی کے خم ابرو کی کارگزاریاں ہیں ۔ ریل کی پٹریوں پر یہ دوطرفہ لاکھوں من پتھروں کے ڈھیر انہی پہاڑی پتھروں کے جگر پارے ہیں لیکن یہی طاقت ور لوہا جس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا بڑے بڑے پہاڑوں نے لوہامان رکھاہے، جبھی تک طاقت ور ہے،جب تک کہ پتھروں کے سرپر ہے لیکن اگر اس لوہے کو کہیں آگ چھوجائے تو اس کا رنگ روپ متغیر اور چہرہ فق ہوجاتاہے۔ ’’پانیوں کا سب سے بڑا گھر، بلکہ ابوالمیاہ سمندر اعظم کہ جس کی بے پناہ عظمت سے ڈر کر دنیا کاربع مسکون گویا ایک طرف پڑا ہوا ہے اور جس کی کوہِ پیکر موجوں کا لگاتار سلسلہ خشکی کے کناروں پر اس طرح حملہ آور محسوس ہوتا ہے کہ گویا کرئہ زمین کو نگل جائے۔ ’’گویا وہ ایک آگ جو سرنیچا ہی نہیں کرتی تھی(دیاسلائی کی شکل میں ) انسان کے سامنے تنکے چننے لگی اوراس کی رفعت وتعلّی خاک میں مل گئی۔ گویا برقی روکی ایک عظیم الشان فوج ایک دبلے پتلے سپاہی (بجلی کے تار) کی قید میں گرفتار ہے‘‘۔ پندرہ اگست ۱۹۵۷ء کو یوم آزادی کے دن اس موضوع پر آغاز تقریر کے یہ جملے کے ملاحظہ فرمائیں اس میں لسان وبیان دونوں کی قوت کس حد تک کارفرما ہے: ’’یہ آزادی آسمان سے بارش کی طرح ایک دم برس نہیں گئی بلکہ کتنے ہی صبرآزما دنوں کتنے ہی دار ورسن کے ہنگاموں اور قید وبند کے ہیبت ناک کٹہروں بلکہ کتنی ہی تڑپتی ہوئی لاشوں سے گزر کر یہ آزادی کی