حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
رکھے ہوئے پایا پھر کیا تھا مولانا محمد احمد صاحبؒ کا غضب اُبل پڑا تادیب کے ساتھ کھانا بند دو ایک روز کے بعد اسی طالب علم کے حجرے کے سامنے سے گذر رہے تھے، دیکھا کہ وہ کھا رہا ہے دریافت کرنے پر تفصیل معلوم ہوئی تو خود بھی اس کے ساتھ دیوارگریہ ہوگئے، گھر لے آئے اور ہمیشہ کے لئے وہ دستر خوان قاسمی کا خوشہ چیں ہوگیا۔ بھولے اتنے کہ انگریزی دونی اور چونی میں فرق نہ کرتے کسی ملازم پر بگڑتے تو فرماتے تم اپنی اس حرکت پر مباح الدم ہوچکے ہو یا تمہارا یہ جرم گردن زدنی ہے مہتمم صاحبؒ کی مرحومہ والدہ مرقع حیا، چہرہ پر معصومیت، گفتگو معصوم بچوں کی طرح بلکہ محسوس ہوتا کہ بات چیت میں فراخ ذہن ہیں اس کم گفتاری کے نتیجہ میں بہت سے گناہوں سے خود کو بچا لیا تھا۔ سردی میں سبزکاہی شال جس پر چھوٹے پھول ہوتے گرمیوں کا لباس عموماً ڈھاکہ کی چکن دوپٹہ بھی اسی کا ہوتا جو اں بخت بیٹے کے جب اسفار عالمگیر انداز میں شروع ہوگئے تو کبھی فرماتیں کہ ’’طیب جب خدا تعالیٰ رزق تقسیم کر رہا تھا تو تیرے حصہ کو دنیا میں بکھیر دیا‘‘ ہمارے یہاں عموماً تشریف فرما ہوتیں خصوصاً میرے برادرِ بزرگوار کی شادی جب رامپور ہوئی تو چند روز مسلسل قیام رہا ایسی نیک بخت بیبیاں کم از کم پون صدی پہلے کی دلآویز یادگار تھیں نئی نسل کے طمطراق نے تو انھیں آثار قدیمہ کی فہرست میں داخل کر دیا۔ بے ہمہ و باہمہ اس قدر معصوم کہ ایک قریبی عزیز نے سو روپے کا وہ نوٹ جس سے بچے کھیلتے ہیں امانتاً ان کے پاس رکھوا دیا اور حسب ضرورت وہ پانچ دس لیتا رہا ایک دن اماں بی اس نوٹ کو دیکر کسی خادم سے بازارسے کچھ منگانے لگیں تو راز کھلا کہ سب جعل و فریب تھا، غرضیکہ نیکی و شرافت، معصومیت و محبوبیت مہتمم صاحب مرحوم کے حصہ میں طرفین سے آئی۔ شعور نے آنکھ کھولی تو یہ عصر دارالعلوم کا خیرالقرون تھا، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ اگرچہ بینائی جاتی رہی تھی تاہم حیات تھے، بارہا اپنے سینۂ بے کینہ بلکہ معرفت و عرفان کے گنجینہ سے مہتمم صاحبؒ کو مس کیا ، شیخ الہندؒ کا دست شفقت سر پر رہا، علامہ شبیر احمد عثمانی ؒاور حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ سے ابتدائی اسباق لئے۔ حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ نے بڑاوقت آپ کی تعلیم کے لئے صرف کیا اور پھر دارالعلوم جو اس وقت ممتاز شخصیتوں کا کہکشاں تھا ان میں سے ہر ایک افادہ کے لئے سرگرم گویاکہ : میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر آخر کار اپنے وقت کے محدث جلیل ابن حجر عصر اور ثانی ابن ہمام علامہ کشمیریؒ کے اتھاہ علم سے سیرابی کے لئے مستعد ہوگئے اور جم کر استفادہ کیا تاآنکہ جس شب میں علامہ اس خاکدانی ارضی کو چھوڑ رہے تھے