حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اب حضرتؒ کی وفات کے موقع پر بے ساختہ کچھ بے قافیہ اور بے وزن اشعار بن گئے تھے اس کو پیش کررہا ہوں ، جو درج ذیل ہیں : اللہ کو پیارے ہوئے وہ طیب والا صفات جنت الفردوس میں جن کا تھا بے حد انتظار اشرفؔ ومحمودؔ واحمدؔ قاسمؔ نانوتویؒ سب کے سب بس منتظر تھے انکے باصد اضطرا کہہ رہے ہیں سب فرشتے آرہا ہے کون یہ اور حوریں منتظر تھیں ہر طرف اور بے قرار تاریخ چھ شوال کی اور وقت بعد عصر کا کرگئے رحلت جو تھے ماوایٔ علم بے شمار سیرت وصورت میں اکمل مظہر علم وعمل کون اب ثانی ہے ان کا بلکہ سب ہیں اشکبار دین کی خدمت میں گزری عمر ان کی بے شبہ علم کے نشوونما میں ان کا حصہ صدہزار مرکز دین ہے جو شہرت یافتہ دیوبندسے اس کے رأس المال بھی تھے اور تھے اس پر نثار مہتمم بھی تھے وہ اس کے اور حقیقی سرپرست ہمدر بھی سچے تھے اس کے اور سچے غمگسار آہ! اے دیوبند تو صدآہ اے دیوبند تو اٹھ گیا سرسے تیرے وہ تیرا سچا غمگسار کس طرح توصیف انکی میں کروں کیسے کروں کچھ بھی کہوں جتنا کہوں ان سب کا ہوگا اک شمار علم کے مورد بھی وہ تھے علم کے منہل بھی تھے اب پیاسے کیا کریں گے لاکھ پائیں جوئے بار اے خدا تو مغفرت انکی کرے اور بخش دے جنۃ من تحتہا الانہار تجری بے شمار کرمعیت سرور کونین کی ان کو عطا عرش کے نیچے جگہ دے تاکہ ہو ان کو قرار جس طرح عثمانؓ ذی النورین بیحد نرم تھے شورشیں لاکھوں ہوئیں لیکن رہے وہ صبر یار بے شبہ یہ بندۂ طیب ترا بھی نرم تھا شورشیں سہتا رہا وہ صبر سے ہوا ہمکنار صبر کے بدلے میں انکو اپنی ذات پاک دے رات دن تیری زیارت بس رہے ان کا شعار اے خدا اس طیّبی کو بھی فلاح دین دے اور دنیا میں غنا دے آخرت میں اپنا پیار ……v……