حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نشانی تھے اوران کی کتاب زندگی کے ان حسین عنوانوں کا اجاگر ہونا اخلاف کے لئے ضروری بھی ہے اور محسن شناسی کا تقاضا بھی، تاہم راقم الحروف نے ان سب سے ہٹ کر جو عنوان اختیار کیا ہے اس کے ذریعہ اپنی تہی مائیگی کے اعتراف کے ساتھ ہی حکیم الاسلام کی نسبتوں کی قدردانی اور انداز خرد نوازی کی ایک جھلک دکھانا بھی مقصود ہے۔ امام اہل سنت حضرت مولانا محمد عبدالشکور فاروقیؒ اور ان کے برادرِ خورد جامع العلوم حضرت مولانا محمد عبدالرحیم فاروقیؒ سے حکیم الاسلامؒ کے برادرانہ رشتہ اور ربط باہمی کی تفصیلات پیش کرنے سے تو راقم الحروف عاجز ہے، ہاں حکیم الاسلام کے وہ تعزیتی خطوط پیش نظر ہیں جو ان دونوں بزرگوں کی وفات کے موقع پر ان کے ورثاء کے نام بھیجے گئے۔ دسمبر ۱۹۵۶ء میں جامع العلوم حضرت مولانا محمد عبدالرحیم صاحب فاروقیؒ کی وفات کے موقعہ پر ان کے برادر اکبر امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحبؒ کے نام ایک اور صاحب زادۂ گرامی حضرت مولانا عبدالحلیم فاروقیؒ کے نام یکے بعد دیگرے بھیجے گئے۔ دو خطوں میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے نہ صرف اپنے گہرے ربط و تعلق کے ساتھ صدمہ کا اظہار فرمایا ہے بلکہ حضرت مولانا محمد عبدالرحیم صاحبؒ کی جلالتِ علم اور اخلا ق و تواضع کا جس والہانہ و غیر رسمی انداز میں ذکر فرمایا ہے اس سے ہم خردوں کو اپنے جد امجدؒ کے مرتبہ و مقام کو سمجھنے میں بہت کچھ رہنمائی ملی۔ اسی طرح اپریل ۱۹۶۲ء میں امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقیؒ کی وفات کے موقع پر حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے تعزیتی خط میں اور پھر وفات کے بعد ان کے قائم فرمودہ ’’شہدائے اسلام‘‘ کے سالانہ جلسوں میں پہلی تشریف آوری میں دورانِ تقریر حضرت امام اہل سنتؒ کے سانحۂ وفات پر جس گہرے قلق اور فکر مندی کا اظہار فرمایا، اس کا لفظ لفظ درد و محبت میں ڈوبااور ہر قسم کے تکلف و تصنع سے پاک تھا اور اس کی تاثیر ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘والی تھی۔ ۱۹۶۲ء تک چوں کہ راقم الحروف سن بلوغ کو بھی نہیں پہنچا تھا اس لئے خانوادۂ فاروقی کے ان دونوں بزرگوں کے ساتھ حضرت حکیم الاسلامؒ کے روابط شعوری مشاہدہ و حفظ کے لائق نہ تھے، البتہ ان کے اخلاف اور اپنے بزرگوں سے اس سلسلہ میں جو کچھ سنا اور اس خانوادہ کے سلسلہ میں حکیم الاسلام ؒکی جن مراعات کا مشاہدہ کیا وہ بے غرض اور گہرے دینی رشتہ کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ (۱) امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور فاروقیؒ کے قائم فرمودہ لکھنؤ کے تاریخی پندرہ روزہ جلسہ ہائے ’’شہدائے اسلام‘‘ میں ہر سال کسی ایک روز حکیم الاسلامؒ نے شرکت اور اپنی گہر بار تقریر کو لازمی رکھا،