حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ان کی علا لت کے آخری زمانے میں مو لانا منظور صاحب نعمانی ممبر مجلس شو ریٰ دارالعلوم دیوبند جنھوں نے ان کے خلا ف بہت کچھ لکھا تھا بلکہ بعض نا گفتنی با تیں بھی لکھ ڈالی تھیں معا فی کا خط لکھا تو انھوں نے جو اب میں انھیں لکھا کہ میر ا ذاتی کو ئی معاملہ نہیں ہے ،اور نہ مجھے کو ئی شکا یت ہے ، دارالعلوم کا معاملہ ہے اس سلسلہ میں آپ اس کے ذمہ داروں ہی سے معا فی ما نگیں تو بہتر ہے اس جو اب میں قدرے نا راضگی کا اظہار ہے مگر انداز کتنا شریفانہ ہے۔ مجلس شو ریٰ کے بعض ممبران نے بسا اوقات ان کے خلا ف بہت سخت انداز اختیار کئے تھے اور ان کے بہت سے کئے ہو ئے اقدامات کو رد کر ادیتے تھے مگر وہ کبھی چیں بہ جبیں نہیں ہو تے تھے اور نہ اپنے کارناموں اور شخصیت کی بنا پر ان کی ان با توں کو بے وزن سمجھتے تھے اور نہ یہ کو شش کر تے تھے ،مجلس شو ریٰ سے یہ کا نٹا نکل جا ئے ، اس کے بر خلا ف ایک بڑے ادارے کی مجلس انتظامیہ میں لکھنؤ کے ایک مر حوم ممبر صاحب نے کچھ اعتراضا ت کر دیئے تو ادارے کے ذمہ دار صاحب بلڈ نگوں کی طر ف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ آپ لو گو ں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا صر ف اعتراض کر نا آتا ہے۔ بلبلیں تفا وت رہ از کجا تا یکجا ، دارالعلوم دیوبند میں اسا تذہ کا ایک گر وپ ہمیشہ حضرت حکیم الاسلامؒ کا مخالف رہا مگر انھوں نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا ،ممکن ہے کہ کسی مخصوص وجہ سے کسی کی علیحد گی ہوئی ہو مگر عام طور پر انکا طرز عمل یہی رہا ،یہی حال طلبہ کے ایک گروپ کا رہا مگر وہ ہمیشہ ان کو معاف ہی کرتے رہے۔ ۶۵؍۱۹۶۴ء میں ایک با ر دارالعلوم میں کچھ ما لی بحران پیدا ہو گیا تو حضرت حکیم الاسلامؒ نے ذاتی طورپر خود جہد کی اور اس کے لئے حضرت مو لا نا وصی اللہ صاحبؒاور بعض دوسرے بزرگوں سے دعا کی درخواست کی اس خط سے متا ثر ہو کر مولا نا وصی اللہ صا حب ؒ نے اپنی عام عادات کے خلا ف دارالعلوم کے لئے مالی اعانت کی اپیل کی جس سے دارالعلوم میں ہزاروں روپئے پہنچ گئے۔ اوپر عر ض کر چکا ہو ں کہ وہ اعتدال تو ازن اور نر م خو ئی کا مجسمہ تھے، کسی مسئلہ کے سلسلہ میں وہ شدت کو پسند نہیں کر تے تھے اسی طر ح ہندوستان کی مسلم جما عتوں کے سلسلہ میں بھی ان کا طر ز عمل ہمیشہ اعتدال کا رہا،یہی وجہ تھی کہ وہ ہر طبقہ میں قبول کر لئے جا تے تھے۔ ۱۹۴۰ء میں ندو ۃ کے طلبہ کا ایک وفد دارالعلوم دیوبند کے لئے گیا تھا،اس وقت مو لا نا شبیر احمد عثما نیؒ حیات تھے، انھوں نے اور حضرت حکیم الاسلامؒ نے وفد کا اعزا ز کیا اور ان کے استقبال میں مسجد کے اند ر ایک جلسہ کیا ،جس میں حکیم الاسلامؒ نے تقریر فر ما ئی، اور اکبر الہ آبادی کا وہ مشہو ر قطعہ پڑھا جس میں