حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
پر پڑی اور انھوں نے بز ر گوں کے حسن ظن کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ آگے چل کر بذات خود ایک بڑی شخصیت بن گئے، جس وقت انھوں نے اہتمام سنبھا لا دارالعلوم دیوبند ایک متو سط در جے کا مدرسہ تھا، جسے انھوں نے اپنے حسن انتظام سے ہند وستان کا جا مع ازہر بنا دیا ان کی غیر معمولی صلا حیت ہی تھی، حضرت حکیم الاسلامؒ کی ایک خا ص خصو صیت عام مدارس اسلا میہ سے ان کا تعلق تھا وہ اگر کسی گا ئو ں کے کسی مکتب کے جلسہ میں بھی بلا ئے جا تے تھے تو اس میں بھی اسی اہتما م و انشراح کے سا تھ شر یک ہو تے تھے،جس طر ح کسی بڑے مدرسہ کے جلسہ میں وہ شریک ہو تے تھے،خواہ جا معۃ الرشاد میں ان کو جب بھی بلا یا گیا تو پو رے انشراح قلب کے سا تھ شریک ہوئے، خود جا معۃ الرشاد کی ابتداء ۱۹۶۲ء میں ایک کر ایہ کی عما رت اور مسجدمیں ہو ئی مگر ۱۹۶۵ء میں اس کی جدید عما رت کا سنگ بنیا د جن علما ء و صلحا ء کے ہا تھوں رکھا گیا ان میں خا ص طو ر پر حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒنے اس کی پہلی اینٹ رکھی اس مو قع پر انھوں نے مدرسہ کی افا دیت پر جو مؤثر تقریر کی اس سے متاثر ہو کر شہر اعظم گڑھ جیسے غریب مقام کے با شندوں نے کئی ہزار روپئے کی رسید کٹوائی۔ حکیم الاسلام مولا نا محمد طیب صاحبؒ دوسری با ر اس وقت تشریف لائے جب جا معۃ الرشاد کی طر ف سے مشرقی اضلا ع کے عر بی مدارس کے ذمہ داروں کی مجلس بلا ئی گئی تھی،اس وقت مدرسہ کا ہا ل جہا ں بنا ہوا ہے، وہاں ایک بڑا چھپر پڑا ہو ا تھا، اسی چھپر میں مجلس ہو ئی حضرت حکیم الاسلامؒ مجلس سے کئی گھنٹہ پہلے تشریف لے آئے اور مجلس کے بعد بھی کئی گھنٹوں اسی چھپر کے نیچے لیٹے رہے اور فر ما تے رہے کہ آج اس میں بیٹھ کر بزرگوں کی یا د تا زہ ہو گئی ، انھوں نے اپنے معائنہ میں لکھا کہ جو کا م کسی بڑے مدرسہ کو کر نا چا ہئے بحمداللہ وہ جا معۃ الرشاد کر رہا ہے ،تیسری با ر ۱۹۶۷ء میں دستاربندی کے جلسہ میں تشریف لائے ، اسی مو قع پر انھوں نے اسلا می ہا سٹل کا بھی معا ئنہ کیاجو جا معۃ الرشاد کی طر ف سے انگریزی طلبہ کی تربیت کے لئے قائم کیا گیا تھا انھوں نے ہر مو قع پر اپنا معا ئنہ بھی تحریر فر ما یا جو ان کی اعلیٰ ظر فی کا ثبوت ہے ان کی ہمت افزائی اور اعلیٰ ظرفی جا معۃ الرشاد ہی کے سا تھ مخصوص نہیں تھی بلکہ کسی بھی مدرسہ کی طر ف سے جب ان کو مدعو کیاجاتا تھا تو وہ اس انشراح کے سا تھ تشریف لے جا تے تھے کہ ایسا محسو س ہو تا تھا کہ ان کے نزدیک اس مدرسہ کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کسی بڑے دارالعلوم کی ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی ایک بڑی خصو صیت ا ن کی طبعی شر افت، مر وت اور نر م خوئی تھی، انھوں نے زندگی میں شا ید ہی کسی کے آبگینہ دل کو ٹھیس پہونچا ئی ہو جن لو گوں نے اس پیرانہ سا لی میں ان کے معصوم دماغ کو مجروح کیا اور بے داغ شیشہ دل کو چو ر چو ر کر ڈالا ان کے سا تھ بھی انھوں نے کبھی تلخ کلا می نہیں کی۔