حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے مواعظ حسنہ میں بکثرت دیکھی جا سکتی ہیں ۔ انھوں نے زبان و قلم سے دین کی سچی اور بے مثال خدمت کی ہے جیسا کہ ان کی سینکڑوں وقیع تصنیفات سے اندازہ ہوتا ہے۔ اسی نکتہ آفرینی اور دقیقہ سنجی نے انہیں سارے عالم کے لئے حکیم الاسلام بنا دیا۔ خطابت ان کا خاص جوہر تھا جس میں ان کا کوئی مقابل نہ تھا۔ ان کی زبان میں بلاکی کشش تھی۔ حضرتؒ کی تقریر کیا تھی ایک جادو تھا جو دل و دماغ کو یکساں متاثر کرتا ہے۔ جملوں کی بندش، حکیمانہ اندازِ تفہیم، عربی فارسی اور اردو اشعار کا برمحل اور برجستگی سے استعمال، زبان کی شیرینی، حکایات و امثال کے ساتھ مقصد کی تشریح حضرت حکیم الاسلامؒ ہی کا حصہ تھا۔ پھر دریا کی روانی کی طرح حضرت پہروں تقریر کرتے لیکن کوئی اکتاہٹ نہیں محسوس ہوتی تھی۔ بلاشبہ سحبانِ وائل قُس بن ساعدہ جیسے ممتاز مقررین کا دور حضرت کی تقریر سے تازہ ہو جاتا تھا، حضرت نے مخالفتوں اور دشمنی کے ماحول میں جب تقریر کی تو مخالفتوں کا فسوں اور عداوتوں کا انداز بھی ٹوٹ گیا اور مخالفین نے بہرحال اعتراف کر ہی لیا ایسے نامور افراد اور ممتاز ہستیاں صفحۂ دہر پر ہمیشہ پیدا نہیں ہوتیں ۔ حضرت کی جدائی ملت کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں حضرت کی خورد نوازی نے نہ جانے کتنوں کو شہرت کے آسمان ہفتم پر پہنچا دیا۔ ان کی شرافت نفس تھی کہ ہم جیسے گمنام فرد مایہ طالب علم کو بھی اپنے قلم گہر بار سے نوازتے رہے۔ اور اپنی زریں نصیحتوں سے سرفراز فرماتے رہے۔ ان کی عظمت کا بڑا نشان یہ تھا کہ وہ چھوٹوں کو بھی بذریعہ خط مخاطب فرماتے تھے، وصال سے چند ہفتہ پہلے ۹؍رمضان کو حضرتؒ نے مجھے جو خط لکھا ہے اس پر میں اپنے مضمون کو ختم کر رہا ہوں ۔ ملاحظہ ہو۔ محترم و مکرم جناب مولانا محمد حنیف صاحب زید کرمکم سلام مسنون۔ نیاز مقرون! مزاج گرامی۔ عرصے سے بیمار ہوں ۔ عدم اشتہاء کی وجہ سے غیر معمولی نقاہت وضعف بھی مستقل مرض بن گیا ہے۔ اس عرصہ میں مختلف علاج تبدیل کئے گئے، مگر معتدبہ فائدہ نہیں ہوا۔ بحمد اللہ چند روز سے قدرے افاقہ ہے۔ دعا کا طالب ہوں ۔ اس وقت دارالعلوم جامع مسجد کے لئے فراہمی چندہ کے سلسلے میں جناب مولانا محمد یحییٰ صاحب صاحبزادے حضرت مولانا عبد الحق صاحب مدنی ؒآپ کی خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں ۔ موصوف کے لئے مناسب قیام کا انتظام فرمادیں اور اصل مقصد میں مکمل تعاون اور رہنمائی فرمائیں ۔چونکہ بے سروسامانی کے عالم میں یہ نظام قائم کیا گیا ہے ہر ایک ضرورت کی چیز از سرنو مہیا کی جا رہی ہے۔ اس