حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
زبان پر بھی بس یہی ورد تھا۔ ایسے نازک موقعہ پر عروس البلاد بمبئی میں ملک گیر پیمانہ پر مولانا نے بڑی جرأ ت و حکمت سے تمام مکتب فکر کے علماء، دانشور، تعلیم کے ماہر، ماہرین قانون اور سنجیدہ غیرمسلموں کی کانفرنس طلب کی اور بڑی شان بے نیازی کے ساتھ حکومت کو للکار کر فرمایا تھا کہ ’’مسلمان اپنی زندگی سے دست بردار ہو سکتا ہے لیکن اپنے پرسنل لاء اور شریعت سے کسی وقت دست بردار نہیں ہو سکتا‘‘ مولاناؒ کی بروقت رہنمائی اور صورِ اسرافیل نے ملت کے افراد میں ایسی گرمی پھونک دی کہ خواب غفلت میں پڑی ہوئی ملت بیدار ہوئی۔ نام نہاد مسلمانوں اور حکومت کو بھی بالآخر یہ کہنا پڑا کہ حکومت مسلم علماء کے بغیر مسلم پرسنل لاء میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ پرسنل لاء بورڈ کا قیام اور اس کی کانفرنس جہادِ زندگانی میں مولانا کا وہ کارنامہ ہے جسے تاریخ بھلا نہیں سکتی، مولانا کی زندگی میں خدمات کا یہ وہ گوشہ ہے جس نے انہیں نہ صرف یہ کہ علماء کا نقیب بلکہ جامع اوصاف شخصیت کا مالک بنا دیا ہے۔ حضرت مہتمم صاحبؒ اپنے علم وتقویٰ کے ساتھ حدیث میں بھی ایک خاص مقام رکھتے تھے انھوں نے برسوں دیوبند میں رہ کر حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت مولانا محمد انور شاہؒ کے علوم کی اشاعت کی ہے۔ حدیث کے نکات، رموز و اشارات، حقائق و حکم اور نکتہ آفرینی میں دست گاہ رکھتے تھے۔ پھر اندازِ بیان اس حقیقت آفرینی کے ساتھ سونے پر سہاگہ تھا۔ حدیث کی تشریح میں وہ بیک وقت متعدد توجیہ فرماتے تھے، جس سے ان کی بالغ نظری، نکتہ رسی اور ژرف نگاہی کا اندازہ ہوتا ہے۔ خدا نے ان کی زندگی میں اتنی برکت رکھی تھی کہ بیک وقت علماء کرام کی چھ چھ پشت کے استاذ تھے، ان سطروں کے راقم کو بھی ۱۹۵۹ء میں مسلسل ۳؍ماہ حضرتؒ سے حدیث شریف پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔ ان کے فضل و کمال اور تفوقِ علمی کا یہ عالم تھا کہ ایک حدیث پر خوب شرح کے ساتھ گھنٹوں بحث فرماتے تھے، اگر اثناء درس کسی طالب علم نے کچھ دریافت کرلیا تو پھر حضرت کی موزوں اور عبقری اور ہمہ گیری طبیعت کی نکتہ آفرینی نہ پوچھئے، حضرتؒ کی زبان سے ایسے صدف پارے نکلتے تھے کہ بس سنتے رہئے اور سردھنتے رہئے، موطا امام مالکؒ کے درس میں ’’اشتکت النار الی ربہا‘‘ اس حدیث پر حضرتؒ نے تقریباً دو گھنٹہ تقریر فرمائی، رفیق محترم مولانا عبدالحمید صاحب ازہری نے ایک خالص علمی سوال کیا۔ تو حضرتؒ نے پورے شرح و بسط کے ساتھ سائنسی نقطۂ نظر سے حدیث کے ایسے مخفی گوشوں کو بے نقاب کیا جس کا لطف آج بھی غور کرنے کے بعد نہیں جاتا مولاناؒ کی وہ پوری تقریر بعد میں ماہنامہ نقش دیوبند میں شائع ہوئی۔ بلاشبہ حکیم الاسلام اپنے جدّامجدحجۃ الاسلام مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کے علم لدنی کے جانشین تھے جس کی جھلکیاں ان