حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مدرسہ کی مسجد میں ، اساتذہ طلبہ اور معززین شہر کے ایک احتجاجی جلسہ کے ذریعہ اس ناپاک سازش کو بے نقاب فرمایا اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ اس کتاب کے ذریعہ مسلمانوں کے اندرانتشار اور بے چینی پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اس لئے کتاب کی رائلٹی اور ناشر سب پرسخت ترین قانونی چارہ جوئی ہونی چاہئے، حکومت نے بروقت کتاب کو ضبط کرکے ملت کو بڑے انتشار سے بچا لیا، پھر حضرت مہتمم صاحبؒ نے مسلک حق کی ترجمانی کے لئے انتہائی موثر، شگفتہ اوردلائل و حقائق سے معمور کتاب ’’شہید اعظم ویزید‘‘ لکھی جسے نہ صرف علماء بلکہ ارباب نظر نے خوب پسند کیا۔ یہ اقدام حضرت مہتمم صاحبؒ کی زندگی کا زرین کارنامہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی عالمی مقبولیت کے ساتھ عالمی اسلامی یونیورسٹی بنانے میں حضرت مہتمم صاحبؒ نے جس بے جگری کے ساتھ جہاں گیر پیمانہ پر مختلف ممالک کا سفر کیا ہے، اسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ حضرتؒ کے اس مخلصانہ کارنامہ کا دنیا کوئی بدل پیش کر سکتی ہے،حضرتؒ کے ان دوروں ہی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں دارالعلوم کا روحانی فیض نہ پہنچا ہو۔ اور جہاں فضلاء دیوبند دین کے مختلف شعبوں میں نہایت اہم اور وقیع خدمت انجام نہ دے رہے ہوں ۔ ہندوستان میں دینی مدارس کی تاریخ ایسے آفاقی اور ہمہ گیر طوفانی سفر کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، اپنے اسلاف کی اس مقدس امانت کے لئے حضرت حکیم الاسلامؒ نے جوانی کی توانائی اور عہد پیری کا فکر و تجربہ سب کچھ قربان کر دیا اور دارالعلوم کی ترقی کے لئے ایسا بے لوث اہتمام کیا کہ لفظ مہتمم ان کے نام کا جز بن گیا۔ اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر حضرت مہتمم صاحبؒ کی سیاسی بصیرت کا رشتہ حضرت شیخ الہندؒ سے ملتا ہے، دارالعلوم جب کسی سیاسی مشکل میں گرفتار ہوا تو حضرتؒ نے اس کے لئے ہر امکانی کوشش فرمائی، حکومت کی طرف سے جب کبھی مسلم مسائل کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی گئی یا مسلمانوں کے پرسنل مسائل میں حق تلفی کی گئی تو مہتمم صاحبؒ خاموش تماشائی نہیں بنے رہے چنانچہ مسلم اوقاف پر جب کبھی حکومت نے مشکوک نظر ڈالی تو حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحبؒ کی رفاقت میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے بھی زبان و قلم سے اس کے خلاف جہاد کیا۔ پرسنل لاء بورڈ کا قیام اور اس کی صدارت کے ساتھ مولانا کا قلمی جہاد تو ان کی کتاب زندگی کا عہد آفریں باب ہے۔ ایوان حکومت سے لے کر ایک معمولی عہدہ دار کی زبان پر یہی تھا کہ بس ملک کے باسیوں کا سِول کوڈ یکساں ہونا چاہئے، اس زہر آلودِ فکر کی پشت پر حکومت کا ہاتھ تھا۔انتہاء یہ ہے کہ سرکاری مسلمانوں کی