حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کی دور بینی اور وقت شناسی نے دارالعلوم کی ہر طرح سے حفاظت فرمائی، آزادی مل جانے اور تقسیم ملک کے بعد جو دن آئے، وہ اور بھی زیادہ سنگین تھے، سارا ملک ہنگامۂ کشت و خون میں ڈوبا ہوا تھا، قوم و وطن اور ذات کے نام پر جتنا زبردست قتل عام ہوا، اس کی تلخ یادیں آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ لازمی طور پر اس کا سب سے زیادہ نشانہ مسلمان اور اسلامی آثار بنے، دارالعلوم جو ملت کی عظمت کا نشان اور پیام اسلامی کا ترجمان ہے اس کا بھی متاثر ہونا فطری تھا، لیکن خدا کی غیبی مدد نے حکیم الاسلام مولانا طیب صاحبؒ کو وہ حوصلہ بخشاکہ فرقہ پرست اور سپہ زور طاقتوں کے ہر حملے کو پسپا کر کے چھوڑا ، دارالعلوم کی عظمت و تحفظ کی خاطر حضرتؒ نے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا، جسے تذکرہ نگار حضرتؒ کے ذکر سے کبھی جدا نہیں کر سکتے، اس زمانہ میں پاکستان سے آنے والی امداد بلکہ اوقاف کی آمدنی کا مسئلہ بھی الجھ رہا تھا، وہ حضرتؒ ہی کی حکمت عملی تھی، کہ امداد بحال ہوئی، اور حکومت ہند نے خود اسے ضروری اور ملک کی آبرو سمجھ کر بحال کیا، دارالعلوم خدانخواستہ جب گردش میں آئے گا تو اس ملت کو اس مردِ مجاہد اور پیرودانا کی یاد خون کے آنسو رلائے گی۔ مولانا مرحوم اسلامی اقدار کے عظیم داعی ملی روایات کے زبردست حامی تھے، انھوں نے ایک سکنڈ کے لئے بھی غیر اسلامی زندگی برداشت نہیں کی، ان کا فکر و قلم اور ان کی ظاہری اور معنوی توانائیاں طاغوتی تحریکات کے لئے آتش فشاں تھیں ۔ قادیانیت، بہائیت، مغربیت اور نظریہ دو قرآن، جیسے فتنے پاکستان میں سر اٹھا رہے تھے، تو مولاناؒ نے اپنے قلم گہربار اور زبان فیض ترجمان سے ڈٹ کر مقابلہ کیا، بلکہ پسپا کر کے دم لیا، مولاناؒ کی ذات مسلک اعتدال کے لئے میزان عدل تھی، وہ کتاب و سنت کے خلاف ادنیٰ سی فروگذاشت برداشت نہیں کر سکتے تھے، مزاج انسانیت نواز تھا لیکن گروہِ باطل کے لئے وہ تیر پیکاں اور طوفان بکف تھے، رموز زمانہ کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہی حضرت نے زبان و قلم کا استعمال فرمایا۔ وہ اس شعرکی عمدہ اور عملی تصویر تھے۔ جس سے جگرلالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان میری طالب علمی کا زمانہ تھا، ۵۷ء میں محمود احمد عباسی نے اپنی کتاب خلافت ویزید کے ذریعہ یزید کو حق پرست ثابت کرتے ہوئے اس کی نسبت علماء دیوبند کی طرف کر دی۔ اور اس طرح مسلک دارالعلوم کو بدنام کرنے کی گھناونی سازش کی، اس فتنہ کو اس وقت کے زمانہ ساز اخبارات نے بھی خوب ہوا دی۔ اس لئے سب سے پہلے دیوبند کی سرزمین سے اس مرد حق آگاہ نے اس کے خلاف صدائے احتجاح بلند کی اور