حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نمایاں رول ادا کیا ہے اور سینکڑوں صفحات سیاہ کئے حضرت کو معافی نامہ لکھا تو اس پر حضرت نے فرمایا کہ مجھے آپکی ذات سے کوئی شکایت نہیں ہے، اس لئے معافی کا کیا سوال؟ حضرت مہتمم صاحبؒ نے مولانا منظور کے معافی نامہ کے جواب میں جو کچھ تحریر فرمایا اس سے اہل اللہ اور خاصانِ خدا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ مہتمم صاحبؒ لکھتے ہیں ’’اس عالم بے چارگی میں آپ کا مکتوب گرامی ملا، جسے میں اپنے لئے اور دارالعلوم کے لئے روحانی صحت مندی کی علامت سمجھتا ہوں ، آں محترم نے معافی کے الفاظ لکھے ہیں ، آں محترم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ میں نے اپنے چھوٹوں کو بھی کبھی خطا وار نہیں سمجھا کہ ان کی زبان پر معافی کی بات آئے، معاملہ ہم میں سے کسی کی ذات کا نہیں ، نہ معافی کا ہے بلکہ ہمارے اسلاف کی یادگار دارالعلوم کا ہے، ہم سب اپنی خطائوں کی معافی اللہ سے مانگیں ، دعا مانگیں ، ہم سب کو توفیق نصیب ہو اور آخرت کی جوابدہی سے نجات ملے‘‘ دارالعلوم دیوبند کا دور اہتمام اور انتہائی فرض شناسی اور چابک دستی کے ساتھ دارالعلوم کی ترقی مولاناؒ کی زندگی کا وہ عظیم کارنامہ ہے جسے وقت کا مورخ نمایاں اور سنہرے حرفوں سے لکھے گا۔ مولاناؒ کی استقامت پسند طبیعت نے یہ بتا دیا کہ صحرا کو چمن اور ویرانے کو مرغزار کس طرح بنا یا جاتا ہے، وطن عزیز کا دورِ غلامی خصوصاً خود کفیل مدارس کے لئے ایک چیلنج تھا، انگریز کی شاطرانہ چالوں نے ارباب فکر و نظر علماء کے ہوش اڑا دیئے تھے، انگریز کی آخری کوشش تھی کہ مسلمانوں کو نہ صرف ان کی تہذیب بلکہ مقامات مقدسہ سے بھی دست بردار کر دیا جائے، چنانچہ آئے دن یہ مدارس حکومت کی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ پھر دارالعلوم دیوبند جو اُم المدارس ہے وہ انگریزوں کے دست بُرد سے کیسے محفوظ رہتا، اہل نظر جانتے ہیں ۔ کہ ۵۶؍سالہ دور اہتمام میں بڑے حوصلہ شکن حالات آئے، دارالعلوم کی خانہ تلاشی، کبھی پاکستانی طلبہ کی تحقیق، کبھی پاکستانی سراغ رساں مرکز کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش اور کبھی مقامی شرپسندوں کی شرارت جیسے متعدد حربے غیروں کی طرف سے دارالعلوم کی عظمت کو تاراج کرنے کے لئے استعمال ہوتے رہے، مگرحضرت مہتمم صاحبؒ کا علم و تدبر ہر موڑ پر رنگ لایا۔ اور کسی حکومت وقت اور جماعتوں کو حضرتؒ نے دخل در معقولات کا کوئی موقعہ نہ دیا۔ ٹھیک اس وقت جب کہ پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف الائو دہک رہا تھا، دار و گیر اور قید و بند کے گہرے بادل ملت اسلامیہ پر منڈلا رہے تھے، مہتمم صاحبؒ نے نزاکت کا احساس فرمایا۔ اور دارالعلوم کے نظام تعلیم کو ذرا بھی متاثر نہیں ہونے دیا۔ اکابر علماء اور حضرت مدنی ؒ کی مسلسل گرفتاری بھی دارالعلوم کے لئے ایک سخت ابتلاء تھی لیکن حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ