حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
خوش قسمتی سے اس فرومایہ راقم کو بھی حضرتؒ سے شاگردی کی نسبت حاصل ہے، اس نسبت پر تعزیت کے لئے حضرتؒ کے مکان دیوبند کو حاضری کا موقع بھی ملا۔ افسوس کہ کل تک حضرت کا سادہ مکان جو علوم ومعارف کے ساتھ انوارد تجلیات کا مرکز تھا اب وہاں سکوت سناٹا نظر آتا ہے، تاہم جب باپ کا علم بیٹے کو ازبر ہوتا ہے تو قدرت کے غیبی تصرفات اس امانت کے لئے نہ صرف نمودِ کامل بلکہ کامل حفاظت کا سامان بنتے ہیں ، حضرتؒ نے اپنے خانوادہ میں علم و معرفت کی جس شان سے تخم ریزی کی ہے، انشاء اللہ آئندہ بھی اس کے اثرات باقی رہیں گے، حضرت مولانا محمد سالم صاحب خلفِ اکبر ہیں ، جو بلاشبہ اپنے والدکے سچے جانشین ہیں ، حضرت مہتمم صاحبؒ کا وصال پوری ملت اسلامیہ کا وہ جانکاہ حادثہ ہے، جس پر ساری کائنات اشکبار ہے، وصال کے وقت موسم خوب گرم تھا، بارش کا نام و نشان بھی نہ تھا، وصال پر فلک نا صبور نے بھی آٹھ آٹھ آنسو بہائے، جسے تمام لوگوں نے محسوس کیا، حقیقت یہ ہے کہ حضرتؒ کے وصال سے علم و معرفت کا آفتاب، کاروان فضل و کمال امام علم و تقویٰ امت کے مسائل کا گرہ کشا حکیم الاسلام اور ہمہ گیر انسانی اوصاف و کمالات کا پیکر اٹھ گیا، سچ ہے۔ کہاں کہاں دلِ صد چاک اشک خوں روئے دیا ہے داغ جدائی کا اک مسیحا نے حضرت مہتمم صاحبؒ اپنے بزرگوں کی آخری نشانی تھے، وہ حکیم الامتؒ کے جانشین، علوم انورشاہ کے امین، امانت ومسلک دارالعلوم کے بیباک نقیب اور مذہب اسلام کے سچے ترجمان تھے۔ انھوں نے اپنی ذات سے نصف صدی تک طلبۂ علم کو فیضیاب کیا، وہ نہ صرف دارالعلوم کے باوقار اور موثر مہتمم تھے، بلکہ علوم شرعیہ کے مایۂ ناز مبلغ اور قابل فخر استاذ بھی تھے، علوم نبوت اوردارالعلوم کی خدمت یہی حضرتؒ کی زندگی کا روشن مشن تھا، مولانا کا صبر و شکیب، صبر ایوبی کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ اپنے پرایوں کی بے وفائیاں اور طعن و تشنیع پر عمر کے آخری حصہ میں حضرتؒ نے صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہ دیا، انتقام لینا تو وہ جانتے ہی نہیں تھے، ان کی زبان ہر خور دو کلاں کی تعریف میں تر تھی۔ ان کی مجلسیں غیبت سے پاک ہوتی تھیں ، ہنگامۂ دارالعلوم کے دوران جو کچھ ہوا، اسے حضرت ابتلاء سمجھ کر برداشت کرتے رہے لیکن اللہ رے صبرکہ کبھی کسی کے خلاف اپنی زبان سے کوئی ناشائستہ لفظ بھی استعمال نہیں کیا، مجھے مولانا ازہر شاہ صاحبؒ نے بتایا کہ جو لوگ حضرتؒ کی مخالفت میں سرگرم تھے، جب معافی طلب کرنے آئے تو حضرت نے بلا کسی تامل کے معاف کر دیا۔ مولانا منظور صاحب نعمانی جن کے فکر و قلم نے حضرت کے خلاف محاذآرائی میں سب سے