حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
شاعری کا ایک حسن سہل ممتنع ہے، اس کو کمالِ حسن بھی کہتے ہیں ۔ لیجئے ایک شعر زبان پر آگیا جو بلاغت کی بھی داد چاہتا ہے۔ آگئی آنکھ تو کہتے ہیں کہ بیمار ہوئی اور نہ آئی تو سمجھتے ہیں صحیح و صواب ذرا توجہ دیجئے تو استعارہ کی ہر قسم کے جلوے نظر آتے ہیں ، استعارہ بالتصریح ہو یا استعارہ بالکنایہ، استعارۂ بلیغ ہو یا استعارۂ تمثیلیہ، استعارۂ عامیہ ہو یا استعارۂ عنادیہ، استعارۂ غریبہ ہو یا استعارہ وفاقیہ، سب کچھ مجموعہ کلام میں موجود۔ دیکھئے استعارہ بالتصریح کا شعر سامنے آیا اس کو کیسے نظر انداز کر دیا جائے۔ آنکھ نافذ ہے کتابوں میں مثال سوزن کیا تعجب ہے، کہیں گر کہ ہے آنکھ اہل کتاب اسی طرح استخدام، تضاد، حسن تعلیل اور دیگر صنعتوں کے اشعار مجموعۂ کلام میں جابجا موجود ہیں ، اہل فن نے ان کو بہ نظر استحسان دیکھا ہے اورمرور ایام کے ساتھ ان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہاں اس شعری مجموعہ اور حضرت حکیم الاسلامؒ کی شاعری کا ایک اہم گوشہ تو رہا ہی جاتا ہے وہ ہے تصوف اور عرفان حقیقت، کوئی عنوان دیکھئے اس میں تصوف کی چاشنی ضرور ملے گی، حق بھی یہی تھا کہ مجاز کو حقیقت سے آشنا کر دیتے اور وہ حقائق جو پردۂ خفا میں تھے ان کی نقاب الٹ،سب کے رو برو کر دیتے، آخر تھے حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی کے خلیفۂ اجل، اس لئے جب تصوف کی جولان گاہ میں قدم رکھا تو گوئے سبقت لے گئے، عشق و محبت کے حدود و آداب کی پاسدار میں اسی تصوف اور عرفان حقیقت کا نتیجہ ہے، منصور نے اناالحق کا نعرہ بلند کیا تو کسی نے سبحانی ما اعظم شانی کہہ کر عشق کو بے حجاب کردیا، حکیم الاسلامؒ نے اس رازداروں کو افشاء کرنے پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہی تصوف کی روح ہیں ، دیکھئے حضرت حکیم الاسلام کے اشعار میں شریعت و تصوف دو جداگانہ راستے نہیں ۔ایک ہی نظر آتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہ کہ تصوف شریعت سے جدا نہیں بلکہ اس کی آب و آبرو ہے، اب ذرا حضرت حکیم الاسلامؒ کے اشعار میں عشق و محبت کے حدود و آداب کی پاسداری ملاحظہ فرمائیے۔ اے نواسنج انا الحق، ترا کہنا تھا بجا پر نہیں پاس ادب، عشق میں دعوی ہونا ہے انا عشق میں اک راز درون پردہ پر نہیں راز کا حق، راز کا افشاء ہونا عشق خوددار ہے خود راز درون عشاق عشق کی خامی و رسوائی ہے لب وا ہونا شور برپا نہ ہو ہر ایک بلا ہو برسر یاں ہے برسر ہی ہنر، عیب ہے برپا ہونا اپنے آپے میں خودی ہو تو خودی ہے ورنہ اپنے آپے سے گذرنا ہی ہے رسوا ہونا