حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دئیے جائیں ۔ سماعت فرمائیے۔ چشمے بمن گدائے خستہ گوشے بصدائے دل گرفتہ چشم و جگر و دل و دماغم مام کدۂ بہار رفتہ آں رشتۂ کہ رشتۂ خدا بود حسرت کہ زدست قوم رستہ قسمت کہ شد است پارہ پارہ شیرازۂ دیں کہ بود بستہ سلکے کہ ز درّ آبگوں بود اے آہ کنوں ز سنگ سفتہ کوشے کہ ز محدثات و بدعات مخلوط کنیم دین شستہ فریاد کا آخری شعر ہے۔ برخیز کہ خالی انجمن شد بے برگ و ثمر ہمہ چمن شد کہنا چاہئے کہ شاعر نے اپنا دل و جگر نکال کر رکھ دیا ہے اور بارگاہِ رسالت پناہی میں عقیدت کے پھول ہی نچھار نہیں کئے ہیں بلکہ امت کی کس مپرسی پیش کرکے سفینۂ ملت کو ساحل سے ہمکنار کرنے کی فریاد کی ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنا دردِ دل ہندی ساز پر چھیڑا ہے تو حضرت حکیم الاسلامؒ نے فارسی کی شیرینی میں اپنا درد گھول دیا ہے۔ دونوں بزرگوں کی فریادیں آمنے سامنے رکھ کر پڑھئے تو قلب و جگر پر عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اے خاصۂ خاصاں رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے یہ درد و غم، سوز و گداز اور دل ربودگی ان مرثیوں میں بھی ہے جو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اور دیگر بزرگوں کی وفات پر لکھے گئے ہیں ، کہاں تک ایک ایک نظم کا تعارف کرائیے اور اشعار کی داد دیجئے، ہر نظم اس کی متقاضی ہے کہ اس کو پڑھا جائے اور ہر شعرایسا کہ اس پر سر دھنا جائے، مجموعہ کلام کی ضخامت ۲۸۰ صفحات ہے، آخر میں عربی کلام ہے، ہے تو مختصر لیکن عربی پر عبور و قدرت کا مظہر ہے، پہلی نظم فکاہیہ ہے، پہلا مصرعہ عربی میں ہے اور دوسرے مصرع کا قافیہ اردو ہے، نظم بھی ماشاء اللہ طویل سو اشعار پر مشتمل ہے، خاصی دلچسپ اور حکیمانہ مضامین سے معمور و مرصع ، دو ایک شعر ضیافت طبع کے لئے حاضر ہیں ، سنئے اور لطف اٹھائیے۔ الا یا صدیقی اترک الدھر کلّہ فان متاع الدھر لعوق و بوکس و ماھی الا زینۃ ذاتُ کدرۃٍ و قشر بلا لب و قصبٌ بلا رس دوسری طویل نظم مشاہیر امت کے عنوان سے ہے، اس میں مشاہرات کا مختصر ترین تعارف، نہایت