حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کہانی کا دوسرا حصہ بھی ہے، اس کا آغاز بھی حسب سابق حمد سے ہوا ہے، اس میں بھی متعدد عناوین ہیں اس حصہ میں بھی رنگ و آہنگ وہی ہے، وہی قافیہ، مضامین کی ندرت، روانی و برجستگی اور بندش کی خوبیاں ، کہیں نہ کوئی جھول اور نہ آورد کا شبہ، عنوانات بھی جداگانہ، ذرا سنئے تو سہی، عناوین یہ ہیں ۔ حمد الٰہی، ربوبیت کا مقام، ربوبیت مستجمع صفات ہے، ربوبیت اور حمت، ربوبیت اور مالکیت، ربوبیت اور قہر، ربوبیت اور حفظ و نصرت، ربوبیت اور غناء و عطا، ربوبیت اور صمدیت، ربوبیت اور حلم، ربوبیت کا منشاء معرفت ہے۔ ہر انقلاب مال پر رب کا سوال، ربوبیت کی جامعیت، حمد جامع اعتراف ربوبیت ہی سے ممکن ہے۔ حمد ذات و صفات کی ترتیب ربوبیت ہی سے قائم ہے، توحید ربوبیت، ربوبیت مجازی ـــــــ اس عنوان کے تحت بارہ عنوانات ہیں ۔اسی طرح ’’نعت رسالت پناہی‘‘ کے تحت آٹھ عناوین ہیں ۔ نعت کے بعد دوسری آنکھ کے آپریشن کی نوبت آگئی، اس کی کہانی تمہید سے شروع ہوتی ہے اور ۳۵عناوین میں کہانی مکمل ہوجاتی ہے۔ دونوں حصوں میں سات سو اشعار ہیں ، دائیں آنکھ کے آپریشن کے موقعہ پر جو اشعار موزون ہوئے تھے، کون سوچ سکتا تھا کہ دو سال کے بعد بائیں آنکھ کے آپریشن پر نئے مضامین نئی سج دھج کے ساتھ اتنے ہی اشعار پر مشتمل مزید موزوں ہوجائیں گے۔، اس کی حیرت انگیزی پر کس کو شبہ ہوسکتا ہے، یکساں حالات کے باوجود اشعار بالکل نئے مضامین کے ساتھ اپنی داد لینے کے لئے منظر عام پر، ایک ایک شعر کے محاسن کہاں تک گنائے جائیں ، اشعار سے لطف اندوزی کا تعلق تو سننے اور پڑھنے سے ہے، خواہ یہ ’’اسلام کی روانی‘‘ کے اشعار ہوں یا ’’آنکھ کی کہانی‘‘ کے، جس عنوان کے تحت بھی نظمیں لکھی گئی ہیں وہ اردو ادب و شاعری میں وقیع اضافہ ہیں کیوں کہ ان تمام نظموں کا تعلق تخیلات سے نہیں واردات و تاثرات سے ہے، مجموعۂ کلام میں ستاون عناوین کے تحت نظمیں جمع کی گئی ہیں ۔ ان میں قندپارسی کی چاشنی بھی ہے اور عربی کا زور بیان بھی، طویل نعت کے بعد ’’بارگاہِ نبوت میں فریاد‘‘ کے جو فریادی اشعار ہیں ، اس کا ہر شعر اضطراب قلب اور سوز دروں کا آئینہ دار ہے، محسوس ہوتا ہے کہ امت کا حال زبوں دیکھ کر شاعر کا دل پارہ پارہ ہے اور اس نے جگر لخت لخت کو نظم کے قالب میں ڈھال دیا ہے، فریاد میں شاعر نے پہلے فخر موجودات Bکے اوصاف عالیہ اور رفعت و منزلت کو خطاب کیا ہے اور پھر بند کا یہ شعراس خطاب کے بعد مدعا کا آئینہ ہے، ملاحظہ فرمائیے۔ بنگر سوئے امت شکستہ جاں باختہ، دل بجاں گستہ جی چاہتا ہے کہ فریاد کے آخری بند کے چند اشعار جو فریاد کی روح اور قلب حزیں کا مظہر ہیں پیش کر