حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نمی دانم چرا محروم ماندم رہین ایں چنیں مقصود ماندم گدا خود را ترا سلطان چو دیدم بدرگاہ تو اے رحمان دیدم حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید و شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ جن کی انگریز دشمنی اور مجاہدانہ کارنامے روز روشن کی طرح واضح ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ شیخ الہند رحمہ اللہ اپنے استاذ گرامی کے عکس جمیل تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ شیخ الہندؒ کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا سر بلند ہے اور ہمیشہ جہاد حریت کی تاریخ میں شیخ الہند کے قابل فخر کارناموں کو یاد کیا جاتا رہے گا، حضرت شیخ الہند اپنے بلند قامت اساتذہ کی طرح مجموعۂ کمالات تھے، مفسر و محدث، فقیہ و متکلم، خطیب ومصنف، ادیب و شاعر اور مفکر و مجاہد نیز بہت کچھ تھے اور حضرت شیخ الہند کو جس نام سے یاد کیجئے بجا ہے۔ اس موقعہ پر مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ حضرت شیخ الہند ایک باکمال ادیب و شاعر بھی تھے، ’’کلّیات شیخ الہند‘‘ کے نام سے حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعۂ کلام شائع کیا تھا اور حال ہی میں ایک فاضلانہ مقدمہ کے ساتھ ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے پاکستان سے شائع کیا ہے، دیوبند کے کتب خانوں میں بھی دستیاب ہے۔ کلّیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ الہندؒ دبستان دہلی کے ایک کامیاب اور باکمال شاعر تھے۔ کلّیات میں وہ ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر دکھائی دیتے ہیں لیکن شاعری کا محرک خارجی اثرات نہیں بلکہ قلبی و ارادت ہی محرک ہیں اور کلام کا بیشتر حصہ قلبی و ارادت اور جذبات کا ہی آئینہ دار ہے، جو کچھ دل نے محسوس کیا وہ اشعار کے سانچے میں ڈھل گیا، اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ وارداتی اشعار سوز دروں کی آنچ سے لفظوں میں ڈھلے ہیں ، اکابر علماء دیوبند کی شاعری کا یہی طرۂ امتیاز ہے۔ چوں کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نمونۂ اسلاف اور اُن کے علوم ومعارف کے امین و وارث تھے اس لئے ان کا ادب و شعربھی اسلاف کے محور پر گھومتا ہے، اسلاف کی روش سے کہیں انحراف نہیں ملتا اور نہ ہی ان کی شاعری میں آورد ہے، کسی شخصیت سے متاثر ہو ئے یا واقعات وحوادث نظر سے گذرے اور انہوں نے اظہار جذبات پر مجبور کیا تو خیالات و تاثرات اشعار کے سانچے میں ڈھلتے گئے اور ادبی دنیا میں ایک وقیع اضافہ ہوتا گیا، شعر و شاعری مستقل مشغلہ نہیں تھا اور ایک عالم باعمل اس کو مشغلہ بنا ئے بھی تو کیسے؟ کتاب و سنت کی اجازت تو محدود ہے، ان حدود سے حکیم الاسلامؒ قدم باہر کیسے نکال سکتے تھے؟ پھر اسلاف کے جو وارث و امین تھے تو نرے شاعر کیسے ہو سکتے تھے؟ ہاں جو کچھ کہا